علی کل مسلم فی جماعۃ الاربعۃ عبد مملوک او امراۃ اوصبی اور مریض۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نمازِ جمعہ حق ہے واجب ہے ہر مسلمان پر۔ مگر چار شخص غلام، عورت،لڑکے، بیمار (پر نہیں) اور بعض روایاتِ صحیحہ سے مسافر کا بھی مستثنا ہو نا ثابت ہے۔ اور نسائی میں ہے۔ عن حفصۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال رواح الجمعۃ واجب علی کل محتلم یعنی ’’ہر مرد بالغ پر نمازِ جمعہ کے لیے حاضر ہونا واجب اس واسطے کہ اس آیت کا کلمہ {فاسعوا} الفاظ عموم سے ہے۔ ہے۔‘‘یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں اور اس مضمون کی اور احادیث بھی وارد ہوئی ہیں ۔ آیہ جمعہ اور ان احادیث سے صاف ظاہر ہے کہ بجز پانچ اشخاص مذکورین کے ہر مکلف پر جماعت کے ساتھ نمازِ جمعہ فرض ہے۔ اور ہر مقام میں اس کا ادا کرنا صحیح وجائز ہے اور کسی آیت یا حدیث سے ثابت نہیں کہ دیہات میں نمازِ جمعہ ناجائز ہے،بلکہ دیہات میں نمازِ جمعہ پڑھنا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے۔ آپ جب بنی عمرو بن عوف سے مدینہ کو روانہ ہوئے اور موضع بنی سالم میں پہنچے تو یہیں نمازِ جمعہ کا وقت آگیا۔ آپ نے اسی موضع بنی سالم میں جو ایک گاؤں ہے قبا اور مدینہ کے درمیان نمازِ جمعہ ادا فرمائی۔ قال الامام البیھقی فی معرفۃ السنن والاثار وروینا عن معاذ بن موسی بن عقبۃ وعن محمد بن اسحق ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین رکب من بنی عمروبن عوف فی ھجرتہ الی المدینۃ مرعلی ببنی سالم وھی قریۃ بین قباوالمدینۃ فادر کتہ الجمعۃ فصلی فیھم الجمعۃ وکانت اول جمعۃ صلاھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حین قدم انتھی۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی دیہات میں نمازِ جمعہ پڑھی ہے۔ شہر بحرین کے علاقہ میں ایک گاؤں ہے جس کا نام ہے جواثا۔ مسجد نبوی کے جمعہ کے بعد پہلا جمعہ اسی جواثا پڑھا گیا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ عن ابن عباس قال اول جمعۃ جمعت بعد جمعۃ فی مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی مسجد عبد القیس بجواثی من البحرین وفی روایۃ ابی داود قریۃ من قری البحرین آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی صحابہ رضی اللہ عنہم دیہات میں نمازِ جمعہ برابر پڑھتے رہے اور اس کا حکم کرتے رہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ شہر بصرہ سے چھ میل کے فاصلہ پر ایک چھوٹی سی بستی میں رہتے تھے جس کا نام تھازاویہ ۔ آپ کبھی کبھی نمازِ جمعہ ونمازِ عید اسی زوایہ میں پڑھتے تھے۔ اور کبھی کبھی |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |