Maktaba Wahhabi

73 - 277
مقتضی ما تقدم ان فرضیتھھا بالآیۃ المذکورۃ وھی مدینۃ وقال الشیخ ابو حامد فرضت بمکۃ وھو غریب ’’جمعہ کی فرضیت کے وقت میں اختلاف کیا گیا ہے۔ اکثر علماء کا یہ قول ہے کہ نمازِ جمعہ مدینہ میں فرض ہوئی اور پہلے جو بات بیان ہو چکی ۔یعنی یہ کہ نمازِ جمعہ کی فرضیت آیت مذکورہ سے ہے۔ اس کا بھی یہی مقتضی ہے کہ مدینہ ہی میں فرض ہوئی اور شیخ ابو حامد کا یہ قول ہے کہ نمازِ جمعہ مکہ میں فرض ہوئی ۔اور یہ قول غریب ہے۔‘‘ اور مؤلف کے استاد جناب مولوی عبد الحی صاحب رحمۃ اللہ علیہ امام الکلام میں لکھتے ہیں۔ لا یقال قد صرح جمع بان فریضۃ الجمعۃ کان بمکۃ لانا نقول ھذا خلاف ما علیہ الجمھور الخ پس جب ثابت ہوا کہ قول صحیح ومحقق یہی ہے کہ نمازِ جمعہ بعد ہجرتِ مدینہ میں فرض ہوئی تو مؤلف کی پہلی دلیل کا لغو اور بیکار ہونا ظاہر ہو گیا۔ کیونکہ اس دلیل کا اصل مدار اس قول پر ہے کہ نمازِ جمعہ قبل ہجرتِ مکہ میں فرض ہوئی۔ اور اس قول کا غریب وغیرہ صحیح ہونا بخوبی ظاہر ہو چکا۔ ناظرین !آپ نے دیکھا۔ حضرت شوق نے پہلی دلیل کے مرتب کرنے میں کیا کیا بے سروپا باتیں لکھی ہیں۔پہلے تو آپ نے یہ لکھا کہ نمازِ جمعہ بذریعہ وحی قبل ہجرتِ مکہ ہی میں فرض ہو چکی تھی۔ حالانکہ یہ قول بالکل بے دلیل وغیرصحیح ہے۔ پھر آپ نے یہ فرمایا کہ موضع قبا مدینہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے۔ حالانکہ قبا مدینہ سے صرف دو یا تین میل کے فاصلہ پر ہے۔ کما مر پھر آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی نمازِ جمعہ یا تو مدینہ میں ہوئی یا بنی سالم کی مسجد عاتکہ میں ۔ حالانکہ یہ تردید محض غلط ہے کما مر پھر آپ نے یہ افادہ فرمایا کہ موضع بنی سالم مدینہ کا ایک محلہ ہے۔ جو شہر سے باہر ہے۔ حالانکہ موضع بنی سالم مدینہ کا محلہ نہیں ہے،بلکہ وہ ایک گاؤںہے۔ جو مدینہ اور قبا کے درمیان واقع ہے۔ کما مر پھر حاشیہ پر آپ نے یہ تحریر کیا۔ کہ حضراتِ غیر مقلدین کے نزدیک مسافر پر بھی نمازِ
Flag Counter