سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں:
1 ھ کے واقعات میں سے یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی عائشہ بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہما کو اپنے گھر لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے ماہِ شوال 11 / نبوی میں نکاح کیا تھا، اس وقت ان کی عمر 6/سال تھی، اور ہجرت کے سات ماہ بعد ماہِ شوال میں اپنے گھر رخصت کرکے لے آئے، اس وقت ان کی عمر 9/سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی دوشیزہ سے شادی نہیں کی، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب، اور امت کی عورتوں میں سب سے بڑی فقیہہ اور سب سے زیادہ صاحبِ علم تھیں۔ [1]
مشروعیت ِ جہاد:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے مدینہ کی طرف ہجرت کرجانے سے اہلِ قریش کی ان کے خلاف عداوت ختم نہیں ہوگئی، بلکہ مزید تیز ہوگئی، ان کی سازشوں میں شدت آگئی اور مشرکینِ عرب کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام کے خلاف برانگیختہ کرنے میں ان کی کارگزاریاں اور بڑھ گئیں، یہاں تک کہ شہرِ مدینہ کا تعلق دیگرعلاقوں سے تقریباً منقطع ہوگیا، اور عرب اور یہود سب نے مل کر ان کے خلاف محاذ آرائی شروع کردی اور ہر طرف سے ان کے خلاف آوازیں آنے لگیں۔ ذیل میں اہلِ قریش، یہود اور منافقین کی کھلی عداوت کی بعض مثالیں پیش کرتا ہوں:
1۔ مکہ کے مشرکوں نے عبداللہ بن اُبی بن سلول (جو اس وقت علی الإعلان مشرک تھا)اور اس کے دیگر مشرک ساتھیوں کو دھمکی آمیز خط لکھا کہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی کو پناہ دی ہے، اور ہم اللہ کی قسم کھاکر کہتے ہیں کہ یا تو تم اس سے قتال کروگے یا اسے نکال دو گے، یا ہم لوگ اپنی پوری قوت کے ساتھ تم سے جنگ کرنے کے لیے نکل پڑیں گے، اور تمہارے نوجوانوں کو قتل کردیں گے، اور تمہاری عورتوں کو اٹھالائیں گے۔
اس خط کے پہنچنے کے فوراً بعدعبداللہ اور اس کے دیگر مشرک ساتھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے ملاقات کرکے فرمایا: اہلِ قریش کی دھمکی نے تم پر بڑا گہرا اثر ڈالا ہے، وہ لوگ تمہارے خلاف اتنی بڑی سازش نہیں کررہے تھے، جتنی بڑی تم اپنے خلاف کررہے ہو، تم اپنے بیٹوں اور بھائیوں سے جنگ کرنا چاہتے ہو۔ جب انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ بات سنی تو فوراً ہی تتر بتر ہوگئے، اس رعب وخوف کی وجہ سے جو اللہ نے ان کے دل میں داخل کر دیا، یا شاید انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سن کر ہوش آگیا، جس کا مقصد اُن کی اور اوس وخزرج والوں کی خیرخواہی تھی۔ [2]
2۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ عمرہ کی نیت سے مکہ گئے، اور امیہ بن خلف کے مہمان بنے، انہوں نے امیہ سے کہا: میرے لیے کسی تنہائی کا وقت دیکھو، تاکہ میں خانۂ کعبہ کا طواف کرلوں۔ وہ انہیں دوپہر کے قریب لے کر نکلا، راستے میں دونوں سے ابوجہل کی ملاقات ہوگئی، اس نے پوچھا: اے ابو صفوان! تمہارے ساتھ یہ کون ہے؟ اس نے کہا: یہ سعد ہیں، تو ابوجہل
|