زمانوں میں نورِ اسلام نے پورے عالم کو روشن کردیا۔
یہاں ایک بات قابل توجہ ہے کہ عہدِ نبوی میں دعوتِ اسلامیہ کی زندگی میں اس خبیث نفاق کی تاریخ اور اس سے متعلق واقعات شاہد ہیں کہ دعوتِ اسلامیہ جہاں کہیں بھی اُن بنیادوں پر قائم ہوگی، جن پر عہد نبوی میں قائم ہوئی تھی، تو اُس کا سابقہ اُس عہد کے منافقین اور اُن کی سازشوں سے پڑے گا، وہ منافقین بھی مساجدِ ضرار بنائیں گے، اور اللہ کے مخلص داعیوں پر ایسے اتہامات دھریں گے جن سے اُن کا دامن بالکل پاک ہوگا، اور وہ منافقین ہمیشہ اونچی آواز میں کہا کریں گے کہ وہی امتِ اسلامیہ کے لیے مخلص ہیں اور وہی عقل مند ہیں جو تمام امور اور ان کے انجام کار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اور یہ کہ اللہ کے دین کی طرف بلانے والے، اور دینِ اسلام پر قائم رہنے والے بیوقوف، سخت گیر اور انتہاء پسند لوگ ہوتے ہیں۔
منافقوں کا ہر زمان ومکان میں یہی وطیرہ رہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان پر غالب رہا ہے، اور اپنے دین اور اس کی طرف دعوت دینے والوں کا حامی وناصر رہا ہے، اور غلبہ ہمیشہ نیک مومنوں کو حاصل ہوتا رہا ہے جو اللہ کی راہ میں اپنی جان ومال سے جہاد کرتے ہیں۔ اللہ نے سچ کہا ہے:
((يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ)) [الصف: 8]
’’ کفار اللہ کے نور کو اپنے منہ سے پھونک مار کر بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتے ہیں، چاہے کفار کو یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے۔ ‘‘
غزوات اور فوجی دستوں سے متعلق باقی تفصیلات:
میں نے اس سے پہلے اُن اسباب ووسائل کا ذکر کیا ہے، جنہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کفارِ قریش کے کبر وغرور کو لگام لگانے کے لیے اختیار فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ اور مکہ میں رہنے والے یہود اور مشرکینِ عرب کے سامنے مسلمانوں کی قوت کے مظاہرے کے لیے فوجی دستے بھیجنا شروع کردیا تھا، تاکہ مشرکینِ قریش عقل کے ناخن لیں اور مہاجرین وانصارِ مدینہ کے بارے میں اپنے ظالمانہ رویہ پر نظر ثانی کریں، اب میں مدنی سوسائٹی میں نفاق اور منافقین کی حالت بیان کرنے کے بعد دوبارہ باقی غزوات اور فوجی دستوں کی تفصیلات کی طرف عود کرتا ہوں، و باللہ التوفیق۔
غزوۂ ابوا ء یا غزوَۂ ودّان:
ماہ صفر 2 میں مدینہ آنے کے بعد بارھویں مہینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ اہلِ قریش کاایک قافلہ مقام ابواء سے گزرنے والا ہے، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا خلیفہ بناکر ستر (70) مہاجرین کے ساتھ نکل پڑے۔ اس غزوہ کا علَم سفید تھا، اور اس کے اٹھانے والے سیّدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ودّان یا ابواء پہنچے، ان دونوں کے درمیان صرف چھ میل کا فاصلہ ہے، لیکن قافلہ گزرچکا تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس سفر میں بنی ضمرہ بن بکر بن عبدمناۃ بن کنانہ تک بہنچے، اور ان کے ساتھ معاہدۂ امن کیا، اور ان کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معاہدہ کرنے والا مخشی بن عمرو ضمری تھا، جو اس زمانے میں ان کا سردار تھا، پھر آپؐ مدینہ واپس آگئے، اور وہاں ماہِ صفر کے باقی ایام اور ماہِ ربیع الأول کے ابتدائی دنوں تک قیام فرمایا۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا غزوہ تھا۔
|