استہزا ء کرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابن ابی کبشہ کہا کرتے تھے ۔ ان کا نسب بکر بن ہوازن سے ملتا ہے۔ اور حلیمہ سے ان کے چار بچے تھے؛ عبداللہ ، حذافہ، انیسہ اور شیماء۔ چنانچہ یہ سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی بہن ہوگئے، اور شیماء اپنی ماں کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لگی رہتی تھیں چونکہ یہ بڑی تھیں۔ [1]
شقِّ صدر اور شیطان کے حصہ کا نکالا جانا:
حلیمہ سعدیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کا جو واقعہ بیان کیا ہے ، اس میں انہوں نے ذکر کیا ہے کہ دو سفید پوش آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی سعد میں تھے، آپ کا پیٹ چاک کیا، اور اس میں کچھ کیا، پھر جس طرح آپ پہلے تھے ویسا ہی لوٹا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شقِّ صدر کے واقعہ کی تائید کئی دیگر صحیح احادیث سے ہوتی ہے جنہیں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں اُن کی اہمیت اور رسالتِ محمدی کے ساتھ ان کے قوی ربط و تعلق کے سبب یہاں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں :
اِن احادیث سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کے خالق، تورات اور انجیل کو نازل کرنے والے، انبیاء ورسل علیھم السلام کو مبعوث کرنے والے باری تعالیٰ کے علم غیب میں یہ بات پوشیدہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نبی ورسول اور خاتم النّبیین ہوں گے۔ اسی لیے مشیتِ الٰہی نے آپ کو اس بارِ گراں کو اٹھانے کا اہل بنانا چاہا۔ اور آپ کے دل سے شیطان کے حصے کو نکال باہر کیا، تاکہ آپ کی نشو ونما اس طرح ہو، کہ آپ شیطان کے وسوسوں ، شبہوں اور دیگر آلائشوں سے طاہر ونقی رہیں، اور اسلام کے عظیم پیغام کو سارے بنی نوع انسان تک پہنچانے کے ہر طرح لائق وقابل بنیں۔ احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
(ا) سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کو اختصار کے ساتھ یوں بیان کیا ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ لڑکوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زمین پر ڈال کر آپ کا پیٹ چاک کردیا، اس میں سے آپ کا دل نکالا، پھر اس میں سے ایک ٹکڑا نکالا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا :یہ آپ کے اندر شیطان کا حصہ تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو سونے کے ایک طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا، پھر اسے صاف کرکے اس کی جگہ پر لوٹا دیا۔ لڑکے دوڑتے ہوئے آپ کی رضاعی ماں کے پاس آئے، اور کہنے لگے: محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے ، لوگ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ کا رنگ بدلا ہوا تھا۔ [2]
(ب ) اور ابن اسحاق رحمہ اللہ نے کئی صحابہ کرام سے روایت کی ہے ،انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ ہمیں اپنے بارے میں بتائیے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دورانِ گفتگو فرمایا: میں بنی سعد بن بکر میں دودھ پیتا رہا، ایک دن میں اور میرا رضاعی بھائی اپنے گھروں کے پیچھے بکریاں چرا رہے تھے کہ دو سفید پوش آدمی میرے پاس آئے ، ان کے پاس سونے کے ایک طشت میں برف کا پانی بھرا ہوا تھا ، دونوں نے مجھے پکڑ لیا ، میرا پیٹ چیر دیا، میرا دل نکالا، پھر اُسے چیر دیا، اور اس میں سے ایک کالا ٹکڑا نکال کر پھینک دیا ، پھر اُس برفیلے پانی سے میرا دل اور پیٹ دھویا، یہاں تک کہ انہیں
|