Maktaba Wahhabi

137 - 277
ہے۔ اے ناظرین! مولوی شوق صاحب المذھب المختار اور نور الابصار کو دیکھ کر اور دو باقی جوابوں کا حال سن کر بالکل مبہوت ہو گئی ہیں۔ جو اس ٹھکانے نہیں ہیں۔ پہلی وجہ میں آپ نے فرمایا ہے ۔’’ وہ کیا اور اس کے اعتراضات کیا۔‘‘ اور دوسری وجہ میں لکھاہے۔’’ وہ کیا اور اس کا رسالہ کیا۔‘‘ اور اب تیسری وجہ میں ارشاد ہوتا ہے۔ کہ’’اس رسالہ کا ماخذ وہی مذہبب المختار ہے۔ اسی کے مضامین کو الٹ پھیر کر کے لکھا ہیں۔‘‘ جس شخص کی بد حواسی وپریشانی خاطر کی یہ کیفیت ہو وہ کسی رسالہ کا جواب کیا لکھ سکے گا اس تیسری وجہ سے مولانا شوق کی راست گوئی کی حالت بھی معلوم ہو گئی۔ مذھب المختار اور نور الابصار طبع ہو کر شائع ہیں ان دونوں رسالوں کو اول سے آخر تک بغور دیکھنے سے ان کی اس راست گوئی کی جانچ بہت اچھی طرح ہو سکتی ہے۔ اے ناظرین!مولوی شوق صاحب کی یہی تین وجہیں ہیں ۔ انھیں وجہوں سے آپ نے نورالابصار کا جواب نہیں لکھاہے۔ مگر آپ حضرات کو انھیں وجہوں سے صاف معلوم ہو گیا کہ ہمارے رسالہ نور الابصار کے جواب سے جو حضرت شوق صاحب بھاگے ہیں۔ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے،مگر یہی کہ حضرت جواب سے بالکل عاجز وقاصر ہیں اور جب کسی طرف جواب نہیں بن پڑا ہے۔ نو یہی روبا ہانہ تین عذر لکھ کر چلتے ہوئے ہیں ۔ اور انھیں وجہوں سے ان حضرت کی قابلیت اور محدثیت اور کامل الفنیت کی اچھی طرح قلعی بھی کھل گئی۔ اور ہان واضح رہے کہ ہم نے نور الابصار میں تہذیب کا نہایت درجہ خیال رکھا ہے۔ نہ کہیں لایعنی مذاق وظرافت سے کام لیا ہے۔ اور نہ کوئی سخت اور دل شکن لفظ استعمال کیا ہے۔ حتیٰ کہ اس کے نام میں بھی کوئی ثقیل اور ناملائم لفظ نہیں رکھا ہے۔ نہ ہم نے اس کا نام (المنثار ) رکھا اور نہ (السیف البتار )کے لقب سے اس کو ملقب کیا اور نہ (المسمار ) کے نام سے موسوم کیا،بلکہ اس کا ایک مہذب اور لطیف نام نور الابصار رکھا۔ مگر مولوی شوق صاحب اس نام سے خوش نہیں ہوئے،چنانچہ اس نام کی نسبت انھوں نے یہ مذاق لکھا ہے۔’’ہندوستان میں چونکہ برخوردار کے ساتھ الا بصار کثیر الاستعمال ہے اس نام سے اہلِ مذاق کو عجب شگوفہ ہاتھ آیا۔‘‘سچ ہے بفجواے حضرت شوق جیسے محدث کامل الفن کے مقابلہ میں انھیں ناموں میں
Flag Counter