کے پاس آئے تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگا لیا، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وضوکرنا سکھایا، جس طرح جبریل علیہ السلام نے آپ کو سکھایاتھا، اور انہیں نماز پڑھنا سکھایا جیسا جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تعلیم دی تھی۔ گویا خدیجہ رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والی پہلی بنتِ آدم تھیں ۔ [1]
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی یہ حدیث ثابت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب پہلی وحی لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو اور نماز کا طریقہ سکھایا۔ [2]
ابن برائ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ثابت ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو اس وقت آپ کی عمر چالیس سال ایک دن تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام آئے … ابن براء نے کہا: پھر جبریل علیہ السلام نے اپنی ایڑی زمین پر ماری تو اس سے پانی اُبل پڑا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرنا اور دورکعت نماز پڑھنا سکھایا۔ [3]
کِندی سے یہ حدیث ثابت ہے کہ جب وہ ابتدائے اسلام میں عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب کے پاس آئے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، اور خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ کے پیچھے اور علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔[4]
ابن عباس رضی اللہ عنھما سے یہ حدیث ثابت ہے کہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے پہلے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی۔[5]
معلوم ہوا کہ سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سرزمین پر اسلام میں داخل ہونے والی دوسری شخصیت تھیں ، جیساکہ ابن اسحاق نے کہاہے کہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا ایمان لائیں، اور اللہ کی بھیجی ہوئی رسالت کی تصدیق کی، ہرموڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی، اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانے والی اور رسالت کی تصدیق کرنے والی پہلی انسان تھیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کے بوجھ کو کافی حد تک ہلکا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کفار ِقریش کی زبانی کوئی ناگوار بات سنتے جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غم لاحق ہوتا تو آپ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس آتے ، وہ آپ کو اطمینان دلاتیں، ہمت بڑھاتیں اور ہر بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کرتیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتیں کہ آپ ان کافروں کی باتوں سے غمگین نہ ہوں ۔ یہ باتیں سن کر آپ کا دل ہلکا ہوجاتا، اور حزن وملال جاتا رہتا۔ اللہ تعالیٰ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے راضی ہو،اور ان کو اپنی نعمتوں کے ذریعہ راضی کردے۔ [6]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کی کیفیت :
نزولِ وحی کی کیفیت کے بیان میں جو صحیح احادیث وارد ہوئی ہیں، ان کا مطالعہ کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کی
|