Maktaba Wahhabi

554 - 704
مسلمانوں کو ایذاء پہنچاتے تھے، اور غیر مسلموں کو ان کے خلاف اُبھارتے تھے، لیکن مجاہدین سے پہلے اُن کے پاس اُن کا ایک جاسوس پہنچ گیا اور انہیں مجاہدین کی آمد کی اطلاع دے دی، اس لیے انہوں نے علاقہ کے بہت سے مشرکوں کو اکٹھا کر لیا، چنانچہ ابن ابی العوجا ء ان کے پاس پہنچے تو وہ ان کا مقابلہ کرنے کی زور شور سے تیاری کر رہے تھے،صحابہ کرام نے جب ان کو دیکھا تو انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، انہوں نے تیر اندازی شروع کر دی، اور ان کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری دعوت کی ضرورت نہیں۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک تیر چلاتے رہے، اور ہر طرف سے ان کے امدادی دستے آتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے مسلمان مجاہدین کے گرد ہر چہار جانب سے گھیرا تنگ کر دیا۔ مسلمانوں نے زبردست جنگ کی یہاں تک کہ ان کے اکثر لوگ شہید ہوگئے، اور ابن ابی العوجا ء بُری طرح زخمی ہوگئے، اور بڑی مشکل سے مدینہ واپس آسکے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سارا ماجرا سنایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر بہت زیادہ اثر لیا، ابن ابی العوجا ء ماہِ صفر سن 8 ہجری کی پہلی تاریخ کو مدینہ واپس پہنچے تھے۔ [1] سریّہ غالب بن عبداللہ لیثی رضی اللہ عنہ مقامِ کدید کے بنی المُلَوَّح کی طرف: ماہِ صفر سن 8 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غالب بن عبداللہ لیثی رضی اللہ عنہ کو دس سے زیادہ مجاہدین کے ساتھ بنی الملوَّح کی طرف روانہ کیا جو مسلمانوں کو اذیت دیتے تھے اور دیگر غیر مسلموں کو اُن کے خلاف اُبھارتے تھے۔ غالب رضی اللہ عنہ جب اپنے ساتھیوں کے ساتھ مقام کدید پر پہنچے تو ان کو حارث بن مالک لیثی مل گیا جو ابن البر صاء کے نام سے مشہور تھا، اور مسلمانوں کا بدترین دشمن تھا، انہوں نے اس کو قید کر لیا، اس نے کہا کہ میں تو اسلام قبول کرنے کے لیے ہی آیا ہوں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے قصد سے نکلا ہوں، مجاہدین نے اس سے کہا: اگر تم مسلمان ہو تو ایک رات کی قید تمہیں نقصان نہیں دے گی، اور اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا، چنانچہ اسے اچھی طرح باندھ دیا، اور اس کی نگرانی کے لیے ایک آدمی کو اس کے پاس چھوڑ دیا، اور باقی لوگ بنی الملوّح کے علاقہ میں پہنچ گئے اور صبح ہوتے ہی اُن پر حملہ کر دیا، اور اُن میں سے کچھ لوگوں کو قتل کر دیا، اور ان کے اونٹوں اوربکریوں کو ہانک کر مدینہ واپس آنے لگے، لیکن دشمنوں کا ایک آدمی جلد ہی علاقہ کے دیگر کافروں کے پاس پہنچ گیا اور انہیں چیخ چیخ کر حالت سے باخبر کیا، چنانچہ اُن کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی اور مجاہدین پر حملہ کرنے کے لیے دوڑ پڑے، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے حال پر رحم کیا اور اچانک ایک سیلاب امڈ پڑا جو ان کے اور کافروں کے درمیان حائل ہوگیا، اور مسلمان مجاہدین کافروں کے جانوروں کو ہانکتے ہوئے مدینہ آگئے۔ [2] خالد بن ولید، عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنھم کا اسلام: صفر سن 8 ہجری میں ہی تین عظمائے قریش اسلام میں داخل ہوئے جنہوں نے جیوشِ اسلامیہ کی تاریخ ساز قیادت کی۔ یہ تینوں خالد بن الولید، عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنھم تھے۔ ان حضرات کے اسلام لانے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔ ان کے اسلام لانے کے واقعہ کو بیہقی، واقدی اوراحمد وحاکم وغیرہم نے بیان کیا ہے، جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے: خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ جب اللہ عز وجل نے میرے لیے بھلائی کا ارادہ کیا تو میرے دل میں اسلام کی محبت
Flag Counter