Maktaba Wahhabi

555 - 704
ڈال دی، اور مجھے رُشد وہدایت کی بات سمجھ آنے لگی، اور سوچا کہ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے خلاف جتنی جنگوں میں حصہ لیتا رہا ہوں، جب بھی ان میں سے کسی جنگ سے واپس آیا تو دل نے گواہی دی کہ میری سعی لا حاصل ہے، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) عنقریب غالب ہو کر رہیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ کے لیے روانہ ہوئے تو میں مشرکوں کے گھوڑ سواروں کے ساتھ نکلا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے صحابہ کرام کے ساتھ مقامِ عسفان میں ملاقات ہوگئی، اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاء کے لیے مکہ تشریف لائے، تو میں غائب ہوگیا، اور مکہ میں ان کے داخلہ کا مشاہدہ نہ کر سکا۔ اور میرے بھائی ولید نے بحیثیت مسلمان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کیا، اور مجھے تلاش کیا، میں اُنہیں نہیں ملا، تو مجھے ایک خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا کہ ’’ مجھے اسلام کے سلسلہ میں تمہاری بے عقلی سے زیادہ کسی بات سے تعجب نہیں، حالانکہ تمہاری عقل تو بڑی ہے، اور اب اسلام سے تو کوئی آدمی ناواقف نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا ہے کہ خالد کہاں ہے؟ میں نے کہا ہے کہ عنقریب اللہ اسے لے آئے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خالد جیسا آدمی اب اسلام سے ناواقف نہیں ہے، اور اگر وہ اپنی کوششوں کو مسلمانوں کے لیے مشرکوں کے خلاف استعمال کرتا تو اس کے لیے بہتر تھا، اور ہم اسے دوسروں پر ترجیح دیتے۔‘‘ اس لیے اے بھائی! اب بھی تلافیٔ مافات کر لو، بہت سے مفید مواقع سے تم محروم ہوگئے ہو۔‘‘ خط ملنے کے بعد میں نے نکلنے میں جلدی کی، اور دخولِ اسلام کی رغبت بڑھ گئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے میرے بارے میں سوال سے میں خوش ہوا، اور میں نے تب خواب دیکھا کہ ’’میں ایک خشک اور تنگ سر زمین میں ہوں، اور وہاں سے نکل کر ایک کشادہ اور سر سبز وشاداب علاقہ میں آگیا ہوں۔‘‘ میں نے سوچا: یقینا یہ ایک اہم خواب ہے، ہم جب مدینہ آئے تو سوچا کہ میں اس کا ذکر ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ضرور کروں گا، چنانچہ میں نے اُن سے بیان کیا، تو انہوں نے کہا کہ اس میں تمہارے مکہ سے نکلنے کی طرف اشارہ ہے جس کے بعد تم کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کی ہدایت دی ہے، اور اُس تنگی سے مراد جس میں تم تھے، شرک ہے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے جب مکہ سے روانگی کا ارادہ کیا تو وہ صفوان بن امیّہ کے پاس گئے، اور اس سے کہا کہ وہ بھی ان کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے، لیکن اس نے پوری شدت کے ساتھ انکار کر دیا، پھر وہ عکرمہ بن ابی جہل کے پاس گئے، اور صفوان کی طرح اس سے بھی ساتھ چلنے کو کہا، لیکن اس نے بھی صفوان کی طرح انکار کر دیا۔ پھر وہ عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اور اُن سے صفوان وعکرمہ کی طرح چلنے کو کہا، وہ فوراً تیار ہوگئے، دونوں الگ الگ رات کے وقت نکلے اور مقامِ یأجج پر جا ملے، اور وہاں سے ایک ساتھ چلے، دونوں کی مقامِ ’’الہدۃ‘‘ میں عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی، انہوں نے بتایا کہ وہ بھی اسلام قبول کرنے کی نیت سے نکلے ہیں، وہاں سے تینوں ایک ساتھ چلے اور ماہِ صفر میں مدینہ پہنچے، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی آمد کی خبر ہوئی تو بہت خوش ہوئے۔خالد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور آپ کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے چہرہ کے ساتھ اُن کے سلام کا جواب دیا، خالد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور آپ یقینا اللہ کے رسول ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کا شکر ہے جس نے تم کو ہدایت دی۔ میں سمجھتا تھا کہ تم عقلمند انسان ہو، اور امید تھی کہ تمہاری عقل تمہیں خیر پہنچائے گی۔ ان کے بعد عمرو اور
Flag Counter