چنانچہ خدیجہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے ذریعہ ایک بہت بڑا شرف حاصل کیا، (اُس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی) اور تاریخ میں ایک ایسے دروازہ سے داخل ہوگئیں جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ اور دنیا کی چار باکمال اور افضل ترین عورتوں میں اُن کا شمار ہوا ۔ وہ عورتیں ؛ خدیجہ، فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، فرعون کی بیوی آسیہ اور عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ مریم بنت عمران ہیں۔(رضی اللہ عنہن)
یہ شادی خدیجہ رضی اللہ عنھا کی وفات تک باقی رہی، اُم المؤمنین اُس وقت ان کی عمر پینسٹھ سال ہوچکی تھی، اور اس پوری مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور وہ ایک دوسرے کا غایت درجہ اعزاز واکرام کرتے رہے۔ اور اُم المؤمنین سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے فخر و اعزاز کے لیے یہ کافی تھا کہ جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! خدیجہ ایک برتن لیے آرہی ہیں جس میں سالن، کھانا اور پانی ہے ۔ وہ جب آئیں تو انہیں ان کے رب کا اور میرا سلام پہنچادیجیے، اور انہیں جنت میں بانس کے بنے ایک گھر کی خوشخبری دے دیجیے، جس میں نہ وہ کوئی پریشان کن آواز سنیں گی ،اورنہ ہی مشقت وتھکن محسوس کریں گی۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام اولاد، ابراہیم رضی اللہ عنہ کے سوا، انہی سے پیدا ہوئی۔ پہلے قاسم رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے جن کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت تھی، پھر زینب ، پھر عبداللہ ، انہی کو طیب وطاہر کہا جاتا ہے ، پھر رقیہ رضی اللہ عنہ پھرامّ کلثوم رضی اللہ عنہ پھر فاطمہ ۔قاسم رضی اللہ عنہ دو سال کی عمر میں ہی وفات پاگئے، اور عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے۔اُسی دن عاص بن وائل اور مکہ کے دیگر بڑے مشرکوں نے کہا تھا کہ محمد دُم کٹا ہے، اس کا کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا۔تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر مندرجہ ذیل آیتیں نازل فرمائیں:
((إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ﴿1﴾ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ ﴿2﴾ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ)) [الکوثر1-4]
’’بے شک ہم نے آپ کو خیرِ کثیر عطا کیا ہے ، پس آپ صرف اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے، اور صرف اسی کے لیے قربانی کیجیے، بے شک آپ کا دشمن ہی جڑ کٹا ہے۔‘‘
یعنی دُم کٹے تو آپ کے وہ دشمن ہیں جو آپ کو گالیاں دیتے ہیں، اور آپ کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیٹیاں مشرف بہ اسلام ہوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ پہنچیں، اور سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے سوا سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی وفات پاگئیں۔ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ آپ کی وفات کے چھ ماہ بعد اللہ کو پیاری ہوئیں، اور آپؐ سے جاکر مل گئیں ۔ [2]
تعمیرِ کعبہ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں حجرِ اسود کا رکھا جانا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب پینتیس (35)سال کے ہوئے تو قریش نے خانۂ کعبہ کو دوبارہ بنانا چاہا، اس لیے کہ زمانۂ جاہلیت میں اُسے ایک پست زمین میں پتھروں سے بنایا گیا تھا۔ اس کے ہرطرف سے پہاڑ تھے ، اس لیے وہ ہر وقت سیلاب کی زد میں
|