آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت پانے اورمشرکینِ قریش کی طرف سے شدید ترین مشکلات کا سامنا کرتے وقت آپ کا ساتھ دیں۔
چنانچہ جب انہوں نے میسرہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں راہب کی بات اور آپ پر دورانِ سفر دو فرشتوں کے سایہ فگن رہنے اور دیگر بہت سی اہم باتیں سنیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں آپ سے شادی کرنے کی رغبت ڈال دی۔
وہ قرابت داری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قُصی میں مل جاتی تھیں ، اس اعتبار سے امّہات المؤمنین میں وہ نسب کے اعتبار سے آپ سے سب سے زیادہ قریب تھیں۔ انہوں نے اپنے دل کی بات اپنی سہیلی نفیسہ بنت مُنْیہ سے کہی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، اور خدیجہ رضی اللہ عنہ سے شادی کرنے کی بات کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فوراً قبول کرلیا، اور اپنے چچوں سے اس بارے میں بات کی، تو ابو طالب اور حمز ہ وغیرہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے چچا عمروبن اسدسے ملے،(اس لیے کہ صحیح روایت کے مطابق ان کے والد جنگِ ِ فجار میںمارے جاچکے تھے ) اور ان کو اپنے بھتیجے کے لیے پیغام دیا، اور بیس اونٹنی بطور مہر پیش کی۔ اور ابو طالب نے کھڑے ہوکرنکاح کے خطبہ میں کہا: بے شک محمد کا اگر قریش کے کسی بھی جوان سے موازنہ کیا جائے تو یہ اس پر شرافت ونجابت اور فضل وعقل میں فائق ملیں گے، اگر چہ ان کے پاس مال کم ہے، تو مال ایک ڈھلتی چھاؤں اور آنی جانی چیز ہے۔ یہ خدیجہ بنت خویلد سے شادی کرنے کی رغبت رکھتے ہیں ، اور خدیجہ بھی ایساہی چاہتی ہیں ۔ یہ سُن کر خدیجہ رضی اللہ عنہ کے ولی نے کہا: بے شک محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک کریم النفس انسان ہیں، جن کی مثال ملنی ناممکن ہے، اور پھر خدیجہ رضی اللہ عنہ کی شادی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کردی۔
امام فاکہی نے انس رضی اللہ عنہ سے ایک خبر روایت کی ہے جو اُس عظیم محبت کی دلیل ہے جسے خدیجہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنے دل میں شادی سے پہلے سے چھپائے ہوئی تھیں، اور اس محبت کے رازِ نہاں کی بھی دلیل ہے۔خدیجہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اخلاق وسیرتِ حسنہ کے بارے میں آپ کے بچپن سے ہی جو کچھ سنا کرتی تھیںان کے سبب ان کو قوی امید تھی،اور ہر وقت ان کے وجدان پر یہ بات غالب رہتی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اللہ تعالیٰ آخری نبی بناکر مبعوث کرے گا، اور اس کا زمانہ بالکل قریب ہے،روایت مندرجہ ذیل ہے:
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے شادی کرنے سے پہلے ابوطالب کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے خدیجہ رضی اللہ عنھا کے پاس جانے کی اجازت مانگی تو ابوطالب نے اجازت دے دی، اور آپ کے پیچھے ایک لونڈی کو بھیجا جس کا نام ’’نَبعہ‘‘ تھا اور اس سے کہا: دیکھنا !خدیجہ ان سے کیا کہتی ہے؟! نبعہ نے آکر خبر دی کہ میں نے عجیب بات دیکھی، خدیجہ رضی اللہ عنہ کو جب آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو دروازے سے باہر نکل آئیں، آپ کا ہاتھ پکڑا اور اسے اپنے سینے اور گلے سے لگالیا۔پھر کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، اللہ کی قسم! میں ایسا اس لیے کررہی ہوں کہ مجھے امید ہے کہ آپ نبی بنائے جائیں گے،اوراگر ایسا ہو اتو آپ میرے حق اور میرے مقام کو پہچانیے گا، اور آپ اس اللہ سے دعا کیجیے جو آپ کو مبعوث کرے گا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے لیے بنا دے ۔ آپ نے ان سے کہا: اللہ کی قسم! اگر میں نبی ہوا تو تمہارے اس حق کو کبھی ضائع نہیں کروں گا۔ اور اگر میرے سوا کوئی دوسرا نبی ہوا تومجھے یقین ہے کہ وہ اللہ جس کی خاطر تم ایسا کررہی ہو وہ تمہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ [1]
|