Maktaba Wahhabi

482 - 704
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کھجور کی ایک تھیلی دی، آپؐ کے پاس ہمارے لیے اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ ہمیں ایک کھجور دیا کرتے تھے، ہم اسے اس طرح چوستے تھے جیسے بچہ چوستا ہے۔اور اس کے بعد پانی پی لیتے جو ہمیں ایک دن کے لیے کافی ہوتا تھا، ہم اپنی لاٹھیوں کے ذریعہ سلم کے پتے توڑ کر اسے پانی میں بھگودیتے پھر اسے کھاتے تھے، ہم سمندر کے کنارے پہنچے تو ایک اونچے ٹیلے کی مانند ایک چیز اللہ کی طرف سے ہمارے سامنے ڈال دی گئی، جب اس کے قریب پہنچے تو وہ عنبر نامی ایک بحری جانور تھا، جسے ہم ایک مہینہ تک کھاتے رہے، ہماری تعداد تین سو تھی، یہاں تک کہ ہم سب موٹے ہوگئے، ہم اس کی آنکھ کے گڑھے سے پیالوں کے ذریعہ تیل نکالا کرتے تھے، اور اس گڑھے کی ہانڈیاں بنایا کرتے تھے، اور اس کے ٹکڑے کرتے تھے، اور بیل کے گوشت کے ٹکڑوں کے مانند اس کے ٹکڑے بناتے تھے، ایک بار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے ہم میں سے تیرہ آدمیوں کو اس کی دونوں آنکھوں کے گڑھے میں بٹھا دیا، اور اس کی پسلیوں میں سے ایک پسلی لے کر اسے گڑھے میں کھڑا کردیا، اورہمارے سب سے بڑے اونٹ کو اس کے نیچے سے گزارا تو وہ گزر گیا، ہم نے اس کے گوشت کے ٹکڑے بناکر خشک کرلیے اور جب مدینہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب کچھ بتایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ روزی تھی جسے اللہ نے تمہارے لیے بھیج دی تھی، کیا تمہارے پاس اس کا کچھ گوشت ہے تو ہمیں بھی کھلاؤ، تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس کا کچھ گوشت بھیج دیا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا۔ [1] سریّہ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ (دُومۃ الجندل) : شعبان سن 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بلایا، انہیں اپنے سامنے بٹھایا، اور اپنے ہاتھ سے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور فرمایا: اللہ کے نام سے اور اللہ کی راہ میں جنگ کرو، اور کافروں کو قتل کرو، اور خیانت نہ کرو، اور دھوکہ نہ دو، او رکسی بچے کو قتل نہ کرو۔ چنانچہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سات سو مجاہدین کے ساتھ نکلے اور مقامِ دُومۃ الجندل (بادیۂ شام اور بادیۂ عراق کے درمیان ایک شہر) میں مقیم بنی کلب کے پاس پہنچ گئے، اوروہاں تین دن تک لوگوں کو اسلام کی طرف بلاتے رہے، تیسرے دن اصبغ بن عمرو کلبی اسلام لے آیا جو نصرانی اور بنوکلب کا سردار تھا، اور اس کے ساتھ اس کی قوم کے بہت سے لوگ بھی اسلام لے آئے، اور باقی لوگ اپنے دین پر باقی رہتے ہوئے جزیہ دینے کے لیے تیار ہوگئے۔ عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے اصبغ کی بیٹی تماضر سے شادی کرلی، اور اسے مدینہ لے آئے، جس سے سلمہ بن عبدالرحمن پیدا ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کے پاس سن 6 ہجری کی ابتدا میں محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک فوجی دستہ بھیجا تھا، اس لیے کہ وہ لوگ اپنے علاقے سے گزرنے والے مسلمانوں پر زیادتی کرتے تھے، اور مدینہ پر حملہ کرنے کی سازش بھی کررہے تھے، انہیں جب مسلمانوں کی آمد کی اطلاع ہوئی تو فوراً تتر بتر ہوگئے، اُنہی لوگوں کی طرف اِس بار عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سات سو مجاہدین کو بھیجا، تاکہ ان کا محاصرہ کرکے انہیں اسلام کی دعوت دیں، چنانچہ وہ کچھ ہوا جس کا ذکر ابھی گزر ا۔ [2]
Flag Counter