Maktaba Wahhabi

318 - 704
ہے کہ اس نے احد کے دن، بڑی سخت جنگ کی اور کئی مشرکوں کو قتل کیا، اس کے بعد زخموں کی وجہ سے حرکت کرنے سے عاجز ہوگیا، اور سخت تکلیف اٹھانے لگا تو اپنے آپ کو ہلاک کرلیا اور کہا: اللہ کی قسم ! میں نے تو صرف اپنی قوم کی حمیت میں جنگ کی ہے، پھر مرگیا۔ چنانچہ اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سچی ہوگئی کہ وہ جہنمی ہے۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: بنو عبدالاشہل میں کوئی معروف منافق مرد یا عورت نہیں تھی، سوائے ضحاک بن ثابت کے جسے نفاق اور حب یہود کے ساتھ متہم کیا جاتا تھا۔ (25) اور خزرج میں رافع بن ودیعہ۔ (26) اور زید بن عمرو۔ (27) اور عمرو بن قیس۔ (28) اور قیس بن عمرو بن سہیل۔ (29) اور جَدّ بن قیس: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا: مجھے اجازت دے دو، اور آزمائش میں نہ ڈالو۔ (30) اور عبداللہ بن ابی بن سلول: جو منافقین کا سردار اور خزرج اور اوس کا رئیس تھا۔ جاہلیت میں تمام اوس و خزرج والے اسے اپنا بادشاہ بنانے پر متفق ہوگئے تھے۔ اسی وقت اسلام آگیا اور سب کے سب اس میں داخل ہوگئے، جس کے سبب اس ملعون کو شدید تکلیف ہوئی اور اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اس کا دل غیظ وغضب سے بھرگیا۔ اسی نے کہا تھا کہ جب ہم مدینہ واپس جائیں گے تو وہاں کا سب سے معزز آدمی، سب سے ذلیل (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کو وہاں سے نکال دے گا۔ اور اس کے اور اس کی جماعت کے بارے میں پوری سورۃ المنافقون نازل ہوئی۔ اور یہی لوگ بنو نضیر والوں سے خفیہ طور پر مل کر (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیا تھا) کہتے تھے: تم لوگ ثابت قدم رہو، اللہ کی قسم : ((لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّـهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ)) [الحشر: 11] ’’ اگر تم (اپنے گھروں سے) نکالے گئے تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے، اور تمہارے بارے میں ہرگز کسی کی بات نہیں مانیں گے،اوراگر تم پر جنگ مسلط کی گئی تو ہم ضرور تمہاری مدد کریں گے، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بلاشبہ جھوٹے ہیں۔ ‘‘ اس لیے کہ یہ لوگ باطن میں بنو نضیر کے خیر خواہ نہ تھے ۔ [1] بعض منافقینِ یہودو عرب کا مسجدِ نبوی سے نکالا جانا: یہ منافقینِ یہود وعرب مسجدِ نبوی میں آکر مسلمانوں کی باتیں سنتے اور ان کے دین کا مذاق اڑاتے تھے۔ ایک دن اس قسم کے لوگ مسجد میں جمع ہوئے تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپس میں چپکے چپکے ایک دوسرے سے چپک کر باتیں کرتے دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد سے سختی کے ساتھ نکال دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ سیّدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ ، بنو نجار کے عمرو بن قیس کے پاس گئے اور اسے پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے مسجد سے نکال دیا، پھر ابو ایو ب رضی اللہ عنہ رافع بن ودیعہ نجّاری کے پاس آئے اور اس کی چادر اس کی گردن میں ڈال کر پکڑلیا، پھر اُسے زمین پر دے مارا، او راس کے چہرے پر گھونسو ں کی بارش شروع کردی، پھر اسے مسجد سے یہ کہتے ہوئے نکال دیا: تُف ہو تم پر اے منافق خبیث!! عمارہ بن حزم رضی اللہ عنہ زید بن عمرو کے پاس گئے، جو لمبی داڑھی والا تھا، اسے اس کی داڑھی سے پکڑ کر سختی کے ساتھ کھینچتے ہوئے مسجد سے باہر نکال دیا، پھر عمارہ رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو جمع کرکے پوری قوت کے ساتھ ان دونوں سے اس کے
Flag Counter