آپ ذرا تقسیم کرتے وقت ہمارا خیال کیجیے گا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے یہود کی جماعت! اللہ کی قسم! تم لوگ میرے نزدیک اللہ کی مبغوض ترین مخلوق ہو، لیکن یہ بات مجھے ہرگز تمہارے ساتھ زیادتی کرنے پر نہیں اُبھارے گی۔ یہود نے کہا: آسمانوں اور زمین کا قیام اسی عدل وانصاف پر ہے۔
انہی دنوں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اپنا نائب سباع بن عرفطہ رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان کے پیچھے نماز پڑھی، انہوں نے ان کو اوران کے ساتھیوں کو کچھ زادِراہ دے کر خیبر کے لیے روانہ کردیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجاہدین سے بات کی اور ان حضرات کو اموالِ غنیمت میں شریک کرلیا گیا۔ [1]
اُمّ المؤمنین صفیہ بنت حُیَيْ رضی اللہ عنہما :
سیّدہ صفیہ بنت حُیَيْ بن اَخطب ان قیدی عورتوں میں سے تھیں جنہیں مسلمانوں نے خیبر کے ایک قلعہ میں گرفتار کیا تھا، صفیہ رضی اللہ عنہ اپنے اسلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کا واقعہ یوں بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مدینہ سے جلاوطن کیا، تو خیبر میں جاکر رہنے لگے اور کنانہ بن ابی الحقیق نے مجھ سے شادی کرلی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خیبر آنے سے چند دن قبل میری رخصتی ہوگئی، کنانہ نے اونٹ ذبح کیے اور یہودیوں کو ولیمہ کی دعوت دی، اور مجھے سلالم میں واقع اپنے قلعہ میں پہنچادیا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک چاند یثرب سے چلتا ہوا آکر میری گود میں پڑگیا، میں نے اپنے شوہر کنانہ سے اس بات کا ذکر کیا، تو اس نے میری آنکھ پر ایسا طمانچہ رسید کیا کہ میری آنکھ سُوج گئی، میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی تو انہوں نے میری آنکھ دیکھ کر مجھ سے پوچھا اور میں نے انہیں واقعہ بتایا۔
صفیہ رضی اللہ عنھا کہتی ہیںکہ یہود نے اپنے بال بچوں کو کتیبہ کے علاقے میں پہنچا دیا، اور نطاۃ نامی قلعہ کو مقاتلین کے لیے خالی کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے اور نطاۃ کے قلعوں کو فتح کرلیا تو کنانہ میرے پاس آیا اور کہا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) نطاۃ کے قلعوں پر قابض ہوگیا ہے اور یہاں اب کوئی اس سے جنگ کرنے والا نہیں رہا۔ یہاں بہت سے یہود قتل کردیے گئے، عربوں نے ہمارے ساتھ جھوٹا وعدہ کیا تھا۔ پھراس نے مجھے شق کے علاقے میں واقع قلعۂ نزار میں پہنچا دیا، یہ قلعہ زیادہ مضبوط تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قلعۂ نزار کی طرف بڑھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی میں دیگر مجاہدین کے ذریعہ قید کرلی گئی اور آ پ کے خیمے میں بھیج دی گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم شام کے وقت آئے اور مجھے بلایا، میں ان کے پاس چہرے پر نقاب ڈالے شرماتی ہوئی آئی اور سامنے بیٹھ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے دین پر باقی رہنا چا ہوگی تو میں تمہیں مجبور نہیں کرتا، اور اگر اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کروگی تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ صفیہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اللہ اور اس کے رسول اور دینِ اسلام کو اختیار کرتی ہوں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزاد کردیا، اور مجھ سے شادی کرلی، اور میری آزادی کو میرا مہر قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ کے لیے روانہ ہونا چاہا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے آپس میں کہا: ہم آج جان لیں گے کہ صفیہ بیوی ہے یا لونڈی،
|