Maktaba Wahhabi

233 - 704
ابوطالب کی وفات کے بعدا وباشِ قریش کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گستاخیاں: ابوطالب کی وفات کے بعد اوباشِ قریش نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زیادہ گستاخ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو طرح طرح سے اذیتیں پہنچانے لگے، جن کے بارے میں وہ ابوطالب کی زندگی میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔ امام بیہقی نے عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ابوطالب کی وفات کے بعد قریش کے ایک نادان آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر مٹی ڈال دی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر لوٹ گئے، اور ان کی ایک بیٹی ان کے چہرے سے روتے ہوئے مٹی صاف کرنے لگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بیٹی ! مت رو ؤ، اللہ تعالیٰ تمہارے باپ کی حفاظت کرنے والا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: قریش نے ابوطالب کی وفات سے پہلے میرے ساتھ کبھی بھی کوئی بڑی بدسلوکی نہیں کی۔ ہشام بن عروہ اپنے باپ عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اہلِ قریش بزدل بنے رہے، یہاں تک کہ ابوطالب کی وفات ہوگئی، اور امام حاکم نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریش کے لوگ بزدل بنے رہے، یہاں تک کہ ابوطالب کی وفات ہوگئی۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے : میرا خیال ہے کہ اذیت دِہی کے بیشتر واقعات( مثال کے طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر نماز کی حالت میں اونٹ کی اوجھری ڈال دینا، اور عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی روایت کہ مشرکین نے ایک بار پوری قوت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹ دینا چاہا، اور ابوجہل ملعون کا یہ ارادہ کرنا کہ وہ حالتِ نماز میں آپ کی گردن کو روند دے گا، اور فرشتے کا آکر اس کے اس مجرمانہ فعل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان حائل ہوجانا اور اس طرح کی دیگر تمام باتیں) ابوطالب کی وفات کے بعد ہی وقوع پذیر ہوئیں۔[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعوتِ اسلامیہ کے لیے سفرِ طائف: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی تحریک میں جیسے جیسے تیزی آتی گئی، آزمائشیں بھی بڑھتی گئیں، اور خاص طور سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کی وفات کے بعد۔ چنانچہ 30/شوال10نبوی میں ابوطالب اور خدیجہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے تین ماہ بعد، آپ اپنے غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیدل طائف کے لیے روانہ ہوگئے، وہاں پہنچ کر آپ نے ثقیف کے چند سادات وأشراف سے اس امید کے ساتھ ملاقات کی کہ وہ لوگ آپ کو پناہ دیں گے، ان میں سے تین کے نام مندرجہ ذیل ہیں : عبدیالیل، مسعود اور حبیب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ کی طرف بلایا، اور ان سے کہا کہ وہ اسلام کی دعوت کو آگے بڑھانے کے سلسلے میں آپ کی مدد کریں ، اور جن لوگوں نے آپ کی مخالفت کی ہے، ان کے خلاف آپ کی مدد کریں، تو ان میں سے ایک نے کہا: اگر اللہ نے تمہیں کچھ دے کر بھیجا ہے تو وہ کعبہ کے پردوں کو پھاڑ ڈالے گا، اور دوسرے نے کہا: کیا اللہ کو اپنا رسول بنانے کے لیے تمہارے سوا کوئی دوسرا نہیں ملا، اور تیسرے نے کہا: اللہ کی قسم! میں تم سے کبھی بھی بات نہیں کروں گا۔ اگر تم اللہ کے رسول ہو جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو میرے لیے اس سے زیادہ خطرنا ک بات کوئی نہیں کہ میں تمہاری بات کو رد کردوں، اور اگر تم اللہ کے بارے میں جھوٹ بولتے ہو تو میرے لیے مناسب نہیں کہ تم سے بات کروں۔
Flag Counter