جنازہ کی نماز جو آخر میں پڑھی ہے ، جس کے بعد پھر آپ کو نمازِ جنازہ پرھنے کا اتفاق نہیں ہوا۔اس میں چار ہی تکبیرں تھیں، پانچویں اس وجہ سے کہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انے عہد خلافت میں سب لوگوں کو چار ہی تکبیروں پر جمع کیا تھا۔ فتح الباری (ص۶۸۹)میں ہے۔بیہقی نے بہ سند حسن روایت کیا ہے، کہ ابو وائل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگ سات اور چھ اور پانچ اور چار تکبیریں کہتے تھے، پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو چار تکبیروں پر جمع کیا، نیز اسی کتاب میں اس سے پہلے کہ ابن المنذر نے باسناد صحیح روایت کیا ہے، کہ سعید بن المسیّب نے کہا کہ تکبیریں چار اور پانچ تھیں۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو چار پر جمع کیا، ان پانچ وجہوں کے مجموعہ سے معلوم ہوا کہ اکثر چار ہی تکبیروں پر عمل رکھنا چاہیے اور کبھی پانچ بھی کہہ لے تو درست ہے، کیونکہ پانچ تکبیروں کا کسی حدیث سے صریح طور پر منسوخ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ فصل نمازِ جنازہ کی چار تکبیروں میں رفع الیدین کرنا کسی حدیث مرفوع صحیح سے ثابت نہیں ہے اور جو مرفوع حدیثیں اس بارے میں آئی ہیں، وہ ضعیف ہیں۔ ہاں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا نمازِ جنازہ کی چار وں تکبیروں میں رفع الیدین کرنا بہ سند صحیح ثابت ہے اور اس بارے میں ائمہ دین کاا ختلاف ہے، امام ابو حنفیہ کہتے ہیں کہ فقط پہلی تکبیر میں رفع الیدین کرنا چاہیے اور باقی تین تکبیروں میں رفع الیدین نہیں کرنا چاہیے، اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ چار تکبیروںں میں رفع الیدین کرناچاہیے، جامع ترمذی میں ہے کہ اکثر اہلِ علم کے نزدیک نمازِ جنازہ کی ہر تکبیر میں رفع الیدین کرنا چاہیے، اور یہی قول ہے ابن المبارک اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ اور اسحاق رحمۃ اللہ علیہ کا اور بعض اہلِ علم کے نزدیک فقط پہلی تکبیر میں رفع الیدین کرنا چاہیے، یہی قو ل سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اوراہلِ کوفہ کاہے۔ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |