Maktaba Wahhabi

99 - 704
چھٹی صدی عیسوی میں یہ رومانی حکومت داخلی اختلافات کا شکار ہوگئی، جس کے نتیجے میں 532ء میں صرف قسطنطینیہ شہر میں تیس ہزار آدمی مارے گئے۔ اُن دنوں اُن کی اجتماعی زندگی عجیب تناقض کا شکار ہوگئی تھی، ایک طرف تو بہت سے رومانیوں کے ذہن میں مذہبی فکر رچ بس گئی تھی، ان میں رہبانیت عام ہوگئی تھی، اور دینی مسائل میں بحث ومناظرہ ان کا عام مشغلہ بن گیا تھا، تو دوسری طرف اکثر وبیشتر لوگ لہو ولعب، عیش پرستی، رقص وسرود، اورمَردوں اور درندہ جانوروں کے درمیان کُشتیوں کا مشاہدہ کرنا ان کا مرغوب مشغلہ بن گیا تھا۔ اُن کے سرداروں اور مالداروں کی زندگی زن پرستی، فسق وفجوراور اخلاق رذیلہ سے عبارت ہوگئی تھی، اور مصر وشام اور دیگر ممالک میں جن پر وہ حکومت کرتے تھے ظلم وبربریت عام ہوگئی تھی۔ اہلِ شام اپنے اوپر عائد کردہ ٹیکس (تاوان) اور ان قرضوں کی ادائیگی کے لیے جو ظلم وستم کے نتیجے میں اُن کے ذمہ اکٹھا ہوجاتے تھے ، بسا اوقات اپنے بیٹوں کوبیچ دیتے تھے۔ بلادِ عربیہ سے ملحق ملکوں میں رہنے والے مسیحی اپنے ان ناگفتہ بہ دینی اور اَخلاقی حالات کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے شدید ترین محتاج تھے ، تاکہ آپ انہیں دینِ اسلام میں داخل کردیں،اور جہنم سے بچالیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ جو ممالک مسخ شدہ مسیحیت کی ہلاکتوں اور بربادیوں سے پر آشوب زندگی گزار رہے تھے ، اسلام کے زیرِ اثر آگئے اور کفر وبُت پرستی کی بندشوں اور بیڑیوں سے آزاد ہوکر اسلام کی آزادی ووسعت میں داخل ہوگئے۔ [1] اقوامِ یورپ: شمال ومغرب میں پھیلے ہوئے ممالک ِیورپ کا حال رومانیوں سے بھی بدتر تھا، وہ سب کے سب جہالت، ناخواندگی اور خوں ریز خانہ جنگیوں کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے ۔ ابھی کچھ ہی قبل چھٹی صدی عیسوی میں تمام مشرقی ومغربی ممالکِ یورپ میں نصرانیت کا حالِ زار بیان کیا جا چکا ہے۔ مغربی یورپ کا حال بالکل ویسا ہی تھا جیسا روم وایران کا ۔ یونانیوں نے فحاشی وبدکاری کے کاموں پر مذہبی پاکیزگی کی چادر ڈال دی تھی، اور زنا کاری کو اللہ سے قربت کا ذریعہ بنادیا تھا، اور فطرتِ سلیمہ سے دوری کی وجہ سے لواطت بھی ان میں عام ہوگئی تھی۔ 586ء میں اہلِ فرانس نے اس موضوع پر خوب بحث وجدال کیا کہ عورت انسان ہے یا نہیں ۔ اس طرح پورا یورپ ایک مردہ سڑا ہوا جسم بن گیا تھا۔ شرپسندی ،تخریب کاری اور دیگر انارکیاں ان میں عام ہوگئی تھیں، امن وامان، اور نظام وقانون پر عمل معدوم ہوچکا تھا۔ یورپ کا انسان مظلوم ومقہور ہوکر خیر وشر کی تمیز کھوچکا تھا، اور ہلاکت وتباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا۔ آتش پرست ایران کی حکومت: مجوسیوں کی یہ حکومت مسیحی رومانی حکومت سے عظیم تر تھی۔ اس کی بنیاد 224ء میں ’’اَردشیر‘‘ نامی شاہِ ایران نے ڈالی تھی، اور چوتھی صدی عیسوی میں اس کا رقبہ تقریباً ایک تہائی کرۂ اَرضی تک پھیل گیا تھا، اور امن وامان عام تھا، اس لیے عوام آرام وآسائش کے عادی بنتے گئے، اور اپنی ٹھوڑیوں تک شہوت رانی میں ڈوب گئے، اور نسب کے ذریعہ حرام کردہ عورتوں کو اپنے
Flag Counter