لیے حلال بنالیا۔
شاہ یزدجرد دوم جس نے پانچویں صدی عیسوی وسطی دور میں بادشاہت کی تھی، اس نے اپنی بیٹی سے شادی کی، پھر اُسے قتل کردیا، اور شاہ بہرام چوبین جس نے چھٹی صدی عیسوی میں بادشاہت کی، اس نے اپنی بہن سے شادی کرلی تھی۔ یہ خبیث عادت ان میں اتنی جڑ پکڑ چکی تھی کہ تمام ایرانیوں کے نزدیک اس قسم کی شادی کرنا گناہ کی بات نہیں رہی تھی۔تیسری صدی عیسوی میں مانی نام کا ایک آدمی ظاہر ہوا جس نے اعلان کیا کہ روشنی کا تاریکی کے ساتھ مل جانا ایک ایسی برائی ہے جس سے نجات حاصل کرنا نہایت ضروری ہے، چنانچہ اس نے نکاح کے تمام اقسام کو ہی حرام قرار دے دیا، لیکن 276ء میں بہرام نے اسے قتل کردیا، اور اس کی یہ دعوت کمزور ہوگئی۔
لیکن یہ خبیث ایرانی ذہنیت جس نے نسب کے ذریعہ حرام عورتوں سے شادی کرنے کو جائز قرار دیا تھا، ایک بار پھر ’’مزدک‘‘ کی صورت میں ظاہر ہوئی، جو 487 ء میں پیدا ہوا، اور لوگوں میں اس بات کو عام کیا کہ مال اور عورت میں تمام لوگ مشترک ہیں ، ان کے درمیان اس بنیاد پر تفریق کرنے کی کوئی گنجائش نہیں کہ مال اس کے مالک کا ہوتا ہے ، اوریہ کہ نسب وقرابت کی بنیاد پر بہت سی عورتیں محرم ہوتی ہیں جن سے شادی کرنا حرام ہے ۔ ’’مزدک‘‘ کی اس خبیث دعوت کو نوجوانوں ، عیش پرست مالداروں اور شاہی محل میں رہنے والے لوگوں کی خوب تائید حاصل ہوئی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری ایرانی سوسائٹی بد اخلاقی ، شہوت پرستی، اور فسق وفجور میں ڈوب گئی۔
چھٹی صدی عیسوی میں ساسانی بادشاہوں کی داخلی سیاست کا حال یہ تھا کہ وہ ایک طویل مدت تک بذریعہ وراثت حصولِ بادشاہت کی وجہ سے اپنے آپ کو دیگر تمام لوگوں سے بالا وبرتر سمجھتے تھے، اور عوام انہیں معبودوں اور خداؤں کے نام سے مخاطب کرتے تھے، اس لیے کہ انہوں نے اپنی قوم کے ذہنوں میں یہ بات اچھی طرح بٹھادی تھی کہ وہ خداؤں کی نسل سے ہیں ، اس لیے وہ انہی کے مانند خدا ہیں۔ملک کی تمام آمدنی ان کی ملکیت سمجھی جاتی تھی، اور اس میں سے عوام کو جو دیتے تھے وہ ان کا احسان سمجھا جاتا تھا، اس لیے کہ عوام کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہوتے تھے۔
یہ ساسانی لذتوں ، شہوتوں او رعیش پرستی میں ڈوب کر اپنے خالق ورازق کو بالکل بھول گئے تھے،اوربزعم خویش اللہ کے خلفاء ، بلکہ اس کے بیٹے بن بیٹھے تھے، جبکہ پوری قوم بدبختی ، محرومی، تنگی رزق اور سختی ومشقت کی چکیوں میں پسی جا رہی تھی ، اورٹیکسوں اورجُرمانوں کی مصیبت تلے زندگی گذار رہی تھی ، قید وبند اُن کی قسمت بن گئی تھی، اور ساسانیوں اور رومانیوں کی قدیم دشمنی کی وجہ سے مہلک جنگوں کی بھڑکتی آگ کا معمولی اور حقیر ایندھن بن کر رہ گئی تھی۔
دینِ صحیح کے تذکرے سے ایرانی تاریخ بالکل خاموش نظر آتی ہے، سوائے مذہبِ زردشت اور مذہبِ مانویت کے ذکر کے ، جن کی بنیاد انتہاء پسندی، غلو، اور آتش پرستی پر رکھی گئی تھی ان دونوں مذہبوں میں ایک خالق کی عبادت کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا، اور سوائے مذہب ِمزدکیت کے اَفکار کے جو ایک شیطانی تحریک تھی، اور جس کی بنیاد مال اور عورت کی شہوت ورغبت پر رکھی گئی تھی۔
اس طرح پوری ایرانی قوم کو رسولِ ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی شدید ترین ضرورت تھی، تاکہ آپ انہیں راحت ونیک بختی
|