صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے مٹکوں کے استعمال سے منع فرمایا ۔ غر ضیکہ کم سے کم ہجرت کو دو تین برس ضرور گز چکے تھے،بلکہ قاضی رحمۃ اللہ علیہ عیاض وغیرہ نے تصریح کی ہے کہ ان کا قدوم ۸ء میں واقع ہوا تھا۔ کما فیاالفتح اب غورکر نے ی یہ بات ہے کہ ہر چنداتنی مدت میں سینکڑوں اہلِ عوالی وقریٰ مسلمان ہو چکے تھے۔ جابجا مسجدیں بھی تھیں ۔چنانچہ بعض مسجدیں مدینہ طیبہ سے اتنی دور تھیں ۔جہاں کے لوگ جمعہ کے روز مدینہ آنہیں سکتے تھے۔ چنانچہ روحاء جو مدینہ سے ۳۶کوس پر ہے وہاں کی مساجد میںاس ایک ایسی مسجد تھی کہ آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز پڑھ کر فرمایا: لقد صلی فی ھذا المسجد سبعون نبیا اخرجہ الترمذی۔مگر پھر بھی مسجد نبوی کے سوا کسی اور جگہ نمازِ جمعہ کیوں نہیں ہوئی۔ ور مقام تو اور مقام موضع قبا جو مدینہ طیبہ سے تین کوس کے فاصلہ پر ہے۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ تشریف لے جاتے تھے۔ جہاں کی مسجد کی اتنی بڑی فضیلت کہ اس کی بنیاد خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈالی تھی۔ جس کی شان میں قرآنِ پاک میں {اُسِّسَ عَلَی التَّقْوَیٰ }وار د ہوا ہے۔ ایسی متبرک مسجد پھر بھی وہاںآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اس وقت جمہ پڑھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے ہجرت کر کے وہاں آکر دو ہفتے کے قریب قیام فرمایا کما مر اور نہ بعد قیام مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں جمعہ قائم کیا۔ فرض توفرض اگر وہاں صف جائز ہوتا تو فرض نہ سہی جب بھی جواثا سے بہت پیشتر وہاں ضرور جمعہ قائم ہوجاتا۔ تاکہ جو لوگ جمعہ کے روز قباہی میں رہ جاتے تھے اور مدینہ میں نہیں آتے تھے ہ نمازِ جمعہ سے محروم نہ رہتے ۔قبا وغیرہ مقامات میںنہ ہونا، بلکہ مسجد نبوی کے بعد پہلا جمعہ ہجرت کے کئی برس بعد جواثا میں ہونا ،جو بحرین میں واقع ہے صاف اس امر پر دال ہے کہ وہ مواضع محل اقامتِ جمعہ نہ تھے۔ اقول : اس دلیل کے دو جواب ہیں۔ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |