Maktaba Wahhabi

72 - 277
حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازِ جمعہ اس سے پہلے فرض نہ تھا۔ اور قرآنِ پاک سے بھی یہی ثابت ہے کہ نمازِ جمعہ مدینہ ہی میں فرض ہوئی۔ کیونکہ آیہ {اِذَا نُوْدِیَ لِلَّصلٰواۃِ مِنْ یُّوْمِ الْجُمُعَۃِ }الآیہ سے نمازِ جمعہ کی فرضیت ظاہر ہے اور اس آیت کے مدنی ہونے میں کچھ کلام ہی نہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ نمازِ جمعہ مدینہ ہی میں فرض ہوئی۔ اور کتب فقہ حنفیہ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نمازِ جمعہ بعد ہجرتِ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ کفایہ شرح ہدایہ میں ہے۔ اعلم ان الجمعۃ فریضۃ محکمۃ ثبتت فرضیتھا بالکتاب والسنۃ واجماع الا مۃ ونوع من المعنی اما الکتاب فقولہ تعالیٰ {یایھا الذین امنوا اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ} واما السنۃ فحدیث جابر ؓ قال خطبنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال یایھا الناس توبو الی ربکم الحدیث وفیہ واعلمو ان اللہ کتب علیکم الجمعۃ فی یومی ھذا فی شھری ھذا فی مقامی ھذا الخ النتھٰی اور کتب تفسیر سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نمازِ جمعہ مدینہ میں فرض ہوئی ہے۔ تفسیر معالم التنزیل میں ہے۔ والاول اولاھا وھوانھا (رای الایۃ {واذا قرء القران فاستمعوالہ} الایۃ)فی الصلوۃ لان الایۃ مکیۃ والجمعۃ وجبت بالمدینۃ اور اسی طرح خازن رحمۃ اللہ علیہ اور خطیب رحمۃ اللہ علیہ اور قرطبی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی لکھا ہے۔ دیکھو امام الکلام (ص۹۸)مصنفہ مولوی عبد الحی صاحب مرحوم الحاصل کسی حدیث سے نمازِ جمعہ کا قبل ہجرتِ مکہ میں فرض ہونا ثابت نہیں ہوتا،بلکہ حدیث مذکور سے ثابت ہوا کہ نمازِ جمعہ بعد ہجرتِ مدینہ میں فرض ہوئی اور اسی کی تائید قرآنِ مجید بھی کرتا ہے۔ ہاں سیوطی وغیرہ نے لکھا ہے کہ نمازِ جمعہ قبل ہجرتِ مکہ میں فرض ہوئی ہے، مگر یہ بعض کا قول ہے اور بے دلیل اور غریب ہے اور اکثر علماء کا وہی قول ہے جو حدیث مذکورو قرآنِ مجید سے ثابت ہے۔ اور یہی قول ظاہر اور صحیح ہے۔ فتح الباری میں ہے۔ اختلف فی وقت فرضیتھا فالا کثر انھا فرضت بالمدینۃ وھو
Flag Counter