ہے) کیا اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مد کے جنازہ میں اور عورت کے جنازہ میں کھڑے ہوتے تھے، جہاں آپ کھڑے ہوئے ہیں؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا ہاں، اس حدیث کو ترمذی نے حسن کہا ہے، صحیح بخاری میں حضرت سمر ہ بن جندبب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت پر جنازہ کی نماز پڑھی جو اپنے نفاس میں مر گئی تھی۔پس ان دونوں حدیثوں سے صاف طور سے ثابت ہوا کہ میت مرد ہوتوامام کو اس کے سر کے پاس اور عورت ہو تو اس کے بیچ میں کمر کے پاس کھڑا ہونا چاہیے۔ فصل حنفی مذہب کی کتاببوں میں جو یہ لکھا ہے کہ’’ میت مرد ہو خواہ عورت دونوں کے جنازہ کی نماز میں امام کو اس کے سینہ کے مقابل کھڑا ہونا چاہیے‘‘ سوا س کا کوئی ثبوت صحیح حدیث سے نہیں ملتا ہے امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ایک قول حدیث انس رضی اللہ عنہ مذکور کے موافق منقول ہے کہ میت مرد ہو تو امام اس کے سر کے مقابل اور عورت ہو تو اس کے بیچ میں کمر کے مقابل کھڑا ہو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا یہی ایک قول ہے، امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے شرح معانی آثار (ص ۲۸۴) میں اسی قول کو اختیار کیا ہے اور اسی کو بہتر بتایا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں: قال ابو جعفر والقول الاول احب الینا لما قد شدہ الاثار التی روینا ھا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو جعفرطحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا پہلاقول(جو حدیث کے موافق) ہمارے نزدیک زیادہ محبوب ہے، کیونکہ اس قول کا ثبوت ان حدیثوں سے ہوتا ہے ، جن کو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ فصل جنازہ کی نماز میں پہلی تکبیر کے بعد دعاثناء پڑھنے کا ثبوت یہ ہے کہ حضرت فضالہ عن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو دعا کرتے ہوئے سنا جس |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |