Maktaba Wahhabi

306 - 704
نے ان سے کہا: تم مامون ومحفوظ مکہ آکر طواف کرنا چاہتے ہو، حالانکہ تم لوگوں نے ہمارے بے دینوں کو پناہ دے رکھی ہے، اور تمہارا خیال ہے کہ تم ان کی مدد کروگے۔اللہ کی قسم ! اگر تم ابو صفوان کے ساتھ نہ ہوتے تو اپنے اہل وعیال کے پاس بچ کر نہ لوٹ پاتے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے اپنی اونچی آوازمیں اس سے کہا: اللہ کی قسم! اگر تم نے مجھے اس سے روک دیا تو میں تمہیں اس سے زیادہ اہم چیز سے روک دوں گا۔ میں مدینہ سے تمہارے گزرنے کے راستے کو تم پر بند کردوں گا۔ [1] 3۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آنے کے بعد یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی کہ مشرکینِ قریش اور یہود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہیں، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے طلب کیا کہ وہ رات کے وقت آپ کی نگرانی کریں۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے عائشہ رضی اللہ عنہماسے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آنے کے بعد ایک رات بیدار رہے، اور فرمایا: کاش میرے صحابہ میں سے ایک نیک آدمی آج رات میری چوکھٹ پر پہرہ دیتا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہماکہتی ہیں: ہم ابھی یہی باتیں کررہے تھے کہ ہتھیار کی سرسراہٹ سُنی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ آواز آئی سعد بن ابی وقاص! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: کس لیے آئے ہو، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! مجھے آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں ڈر ہوا، اسی لیے پہرہ دینے کے لیے آگیا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی، پھر سوگئے۔ [2] 4۔ مشرکینِ قریش نے خفیہ طور پر یہودِ یثرب کے ساتھ سازش کی اور مسلمانوں کے خلاف کارروائی کرنے کا معاہدہ کیا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو یہ خبر بھیج دی کہ تمہیں اس بات سے دھوکا نہیں کھاناچاہیے کہ بچ کر یثرب چلے گئے ہو، ہم عنقریب تمہارے پاس آئیں گے، تم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، اور تمہیں یکسر ختم کردیں گے۔ [3] انہی مشکل ترین حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جہاد کی اجازت دی، اور ان آیات کا نزول فرمایا: ((أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَاتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا ۚ وَإِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ ﴿39﴾ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ إِلَّا أَن يَقُولُوا رَبُّنَا اللَّـهُ ۗ)) [الحج: 39۔ 40] ’’ جن مومنوں کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، انہیں اب جنگ کی اجازت دے دی گئی اس لیے کہ اُن پر ظلم ہوتا رہا ہے، اور بے شک اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے، جو لوگ اپنے گھروں سے ناحق اس لیے نکال دیے گئے کہ انہوں نے کہا: ہمارا رب اللہ ہے“ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکینِ قریش کے ناخن تراشنے اور ان کے کبر ونخوت کو لگام دینے کے لیے تدبیر کی جس کے دو حصے تھے؛ پہلاحصہ تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے گرد ونواح میں رہنے والے ان قبائل کے ساتھ معاہدے کیے جو مشرکینِ قریش کے شام کی طرف جانے والے تجارتی راستوں پر رہتے تھے، ویسا ہی معاہدہ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلۂ جہینہ کے ساتھ کیا تھا، جس کا مقصد یہ تھا کہ کوئی ایک دوسرے پر حملہ نہیں کرے گا۔ یہ قبیلۂ جہینہ مدینہ سے تین مرحلوں کی دوری
Flag Counter