Maktaba Wahhabi

147 - 704
کی اجرت چار اونٹنی مقرر کی تھی۔ اور کہا جاتا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے آپ کے ساتھ ایک دوسرے قریشی آدمی کو بھی اجرت پر آپ کے ساتھ لگا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خدیجہ رضی اللہ عنھا کا ایک غلام بھی گیا جس کا نام میسرہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بُصریٰ کے بازار میں پہنچے، اور اپنا مالِ تجارت بیچا ،تو گزشتہ تاجروں کے مقابلے میں دو گنا نفع ہوا، اور جو کچھ خریدنا تھا خرید کر مکہ واپس لوٹ گئے۔ آپ کے ساتھ میسرہ بھی تھا جس نے اپنی مالکن خدیجہ رضی اللہ عنھا کو اس نفع کی اطلاع دی جو ان کی تجارت سے حاصل ہوا تھا، تو وہ بہت خوش ہوئیں۔ میسرہ نے ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صدق گوئی، امانت داری اور اخلاقِ حسنہ سے متعلق ساری باتیں بتائیں،نیز یہ بھی بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک آدمی کے درمیان مال فروخت کرتے وقت کچھ بات بڑھ گئی تو اس نے آپ سے لات وعزّیٰ کی قسم کھانے کو کہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں نے کبھی ان دونوں کی قسم نہیں کھائی ہے، اور میں جب کبھی ان کے پاس سے گزرتا ہوں،تو ان کی طرف دیکھتا بھی نہیں۔ اس آدمی نے کہا: تمہاری بات مان لیتا ہوں۔ پھر اس آدمی نے میسرہ سے کہا: اللہ کی قسم! یہ وہ نبی ہیں جن کی صفات ہمارے علماء اپنی کتابوں میں پڑھتے ہیں ۔ راوی نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک راہب کے معبد کے قریب ایک درخت کے سایے میں پڑاؤ ڈالا، تو اس راہب نے معبد کے اندر سے جھانک کر میسرہ سے پوچھا: یہ کون ہے؟ اس نے کہا: قریش کا ایک آدمی ، راہب نے کہا: اس درخت کے سایے میں صرف نبی ہی پڑاؤ ڈالتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا مالِ تجارت فروخت کیا، اور اس کے عوض دوسری چیزیں خریدکر واپس چل پڑے۔ جب دھوپ تیز ہوتی تو میسرہ دو فرشتوں کو دیکھتا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر آفتاب سے سایہ کیے ہوئے ہیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل رہے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو مالِ تجارت شام سے لے کر آئے تھے، خدیجہ رضی اللہ عنھا نے جب اسے مکہ میں بیچا تو دو گنا نفع ہوا۔ اِن سب باتوں سے خدیجہ رضی اللہ عنہ بہت خوش ہوئیں ، اور ان کے دل میں رغبت پیدا ہوئی کہ کاش آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی کرلیتے ، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے صرف پچیس سال پورے کیے تھے۔ [1] سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی: خدیجہ رضی اللہ عنھا ایک حسب ونسب والی،خوبصورت، صحت مند اور کثیر المال عورت تھیں۔ زمانۂ جاہلیت میں انہیں طاہرہ کے نام سے بلایا جاتا تھا۔ پہلے ان کی شادی دو مردوں سے ہوچکی تھی؛ ایک کا نام عتیق بن عایذ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم تھا، جن سے ان کی ایک لڑکی ہوئی تھی ،جو محمد بن سیفی مخزومی کی ماں بنی۔ اس کے بعد ان کی شادی ابو ہالہ تمیمی سے ہوئی جس سے ان کے ہاں ہند بن ہند پیدا ہوئے جو صحابی بن کر جنگِ بدر میں شریک ہوئے ، پھر حدیث کے بڑے راویوں میں اُن کا شمارہوا، اور زینب نام کی ایک لڑکی بھی ہوئی تھی ۔ اور ہالہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پروردہ بنے۔ ابو ہالہ کی وفات کے بعد بہت سے جاہ وحشمت اور مال وجائداد والوں نے خدیجہ سے شادی کرنی چاہی، لیکن انہوں نے خوبصورتی کے ساتھ سب کو ٹال دیا، اور تیسری بار شادی نہیں کرنی چاہی۔ ایسا لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو تیار کیا تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلص ووفادار، اخلاق وکردار میں بے مثال، اورمعاملاتِ زندگی میں تجربہ کار بیوی بنیں، تاکہ اپنی مالی اور اجتماعی حیثیت اور ان صفاتِ حسنہ کے ذریعہ
Flag Counter