قریش نے خالد بن ولید کی قیادت میں گھوڑ سواروں کا ایک دستہ مسلمانوں کا راستہ روکنے کے لیے بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: خالد بن ولید قریشی گھوڑ سواروں کے ایک دستہ کے ساتھ مقام غُمیم میں موجود ہے،(جو مکہ کے قریب رابغ اور جحفہ کے درمیان ہے) اس لیے تم لوگ یہاں سے دائیں طرف چلو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم عام راستہ چھوڑ کر غیر ہموار راہ پر چل پڑے جس کے سبب آپ اور صحابہ کرام کو بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، یہ اس لیے تھا تاکہ مشرکین مکہ کے ساتھ فوجی مڈبھیڑ کی نوبت نہ آجائے، اور اس کارروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ خالد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کی آمد کی اطلاع مسلمان فوجیوں کے گردوغبار سے ہوئی، اور مشرکین گھبرا کر مکہ کی طرف دوڑ پڑے تاکہ قریشیوں کو خبر کریں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھتے رہے یہاں تک کہ جب آپ اُس ثنیہ پر پہنچے جس سے نیچے اُتر کر مکہ والوں کے پاس پہنچ جانا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی بیٹھ گئی۔ لوگوں نے اُسے اٹھانا چاہا، لیکن وہ نہیں اُٹھی، لوگوں نے کہا: قُصواء اَڑ کر بیٹھ گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: قُصواء اَڑی نہیں ہے، اور نہ یہ اس کی عادت ہے، بلکہ جس نے ہاتھی والوں کو روک دیا تھا اسی نے اسے بھی روک دیا ہے۔ [1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر اہلِ قریش کوئی بھی ایسا سمجھوتہ پیش کریں جس میں اللہ کے حرام کردہ شعائر کی تعظیم ہوگی، تو میں اُسے منظور کرلوں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو ڈانٹا تو وہ اُٹھ کھڑی ہوئی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی راہ بدل دی، اور حدیبیہ کے بعید ترین مقام ’’ثمد‘‘ نامی کنویں کے پاس پڑاؤ ڈال دیاجس میں پانی کم پایا جاتا تھا۔
خشک کنویں سے پانی اُبلنا:
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنی پیاس بجھانے کے لیے اس کنویں کا پانی بمشکل جمع کرتے اور اپنی ضرورت پوری کرتے، یہاں تک کہ کنواں بالکل خشک ہوگیا، لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیاس کی شدت کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تیر لیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حکم دیا کہ اسے کنویں میں ڈال دیں۔ راوی کہتے ہیں: اللہ کی قسم! کنویں میں پانی اُبلتا رہا یہاں تک کہ سارے لوگ سیراب ہوگئے۔ [2]
مذکور بالا کنویں سے پانی کا اُبلنا براء بن عازب رضی اللہ عنھما کی حدیث سے بھی ثابت ہے جسے بخاری نے کتاب المغازی، باب غزوۃ الحدیبیہ میں روایت کی ہے، برائ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تم لوگ فتح مکہ کو ’’فتح‘‘ کہتے ہو، اور بلاشبہ فتحِ مکہ تو ’’فتح ‘‘ تھی ہی، لیکن ہم لوگ حدیبیہ کے دن بیعۃ الرضوان کو ’’فتح‘‘ شمار کرتے ہیں۔ ہماری تعداد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چودہ سو(1400) تھی، اور حدیبیہ کے کنویں کا پانی ایک ایک قطرہ ختم ہوگیا، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے پاس آئے، اور اُس کی منڈیر پر بیٹھ گئے، پھر آپؐ نے اسی کنویں سے ایک بالٹی پانی منگایا، اس سے وضو کیا، کُلّی کی، اور دعا کی، اور اسے اسی کنویں میں انڈیل دیا، کچھ ہی دیر کے بعد اس کا پانی اس طرح اُبلنے لگا کہ ہم تمام لوگوں نے اور ہمارے سواری کے
|