’’ اور اس مسلمان عورت کو بھی جو اپنے آپ کو نبی کے لیے ہبہ کر دے، اگر نبی اس سے شادی کرنا چاہیں، یہ حکم آپ کے لیے خاص ہے، عام مسلمانوں کے لیے نہیں ہے۔ ‘‘
میمونہ رضی اللہ عنہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ چلی آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اُن کی شادی فروۃ بن عبدالعزیٰ سے ہوئی تھی۔ [1]
ابو عبیدہ معمر بن المثنّی کی روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے فارغ ہوئے، تو سن سات ہجری میں عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، انہی دنوں جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ حبشہ سے آئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنھا سے شادی کرنے کے لیے ان کو پیغام دیا، چونکہ ماں کی طرف سے ان کی بہن اَسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ جعفر کے نکاح میں تھیں۔ میمونہ رضی اللہ عنہ نے جعفر رضی اللہ عنہ کو اپنی منظوری کی خبر کر دی، اور اپنی شادی کا معاملہ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا، چنانچہ عباس رضی اللہ عنہ نے ان کا نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حالتِ احرام میں تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے لیے لوٹے تو مقامِ سرف میں میمونہ رضی اللہ عنہ سے پہلی بار ملے، اس وقت میمونہ رضی اللہ عنہ چھبیس سال کی بیوہ تھیں۔ [2]
راجح یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے حلال ہونے کے بعد شادی کی تھی، جیسا کہ ابو داؤد نے میمونہ رضی اللہ عنھا سے روایت کی ہے، [3] اور ترمذی نے اَبو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے نکاح حلال ہونے کے بعد کیا تھا، اور رخصتی بھی حالتِ حلال میں کی تھی، اور دونوں کے درمیان واسطۂ خیر میں بنا تھا۔ [4]اور ابن عباس رضی اللہ عنھما کا یہ قول کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ رضی اللہ عنہ سے جب شادی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالتِ احرام میں تھے، اور جب وہ رخصت ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں تو آپؐ حلال ہو چکے تھے، یہ صحیح نہیں ہے، اُن کو وہم ہوا ہے۔ سعید بن مسیّب کہتے ہیں چکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے وہم ہوا ہے، اگرچہ میمونہ رضی اللہ عنہ اُن کی خالہ تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے نکاح عمرہ سے حلال ہونے کے بعد کیا تھا، سعید کا یہ قول بخاری نے روایت کا ہے۔ [5]
میمونہ رضی اللہ عنھا کی وفات قولِ راجح کے مطابق سن 51 ہجری میں ہوئی، اور ان کی وصیت کے مطابق مقامِ سرف میں اسی قُبّہ کی جگہ دفن کی گئیں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رخصتی کی رات اُن کے لیے تیار کروایا تھا۔ وفات کے وقت اُن کی عمر اسی سال تھی، رحمہا اللہ ورضی عنہا۔
سریّہ ابن ابی العوجائ رضی اللہ عنہ ذی الحجہ سن 7 ہجری میں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سن سات ہجری میں عُمرۃ القضاء کی ادائیگی کے بعد واپس آئے، تو ابن ابی العوجا ء کو پچاس مجاہدین کے ساتھ بنی سلیم کی سرکوبی کے لیے روانہ کیا جو خیبر کے قریب نجد کے بالائی علاقہ میں ایک عرب قبیلہ تھا، اس لیے کہ وہ لوگ
|