Maktaba Wahhabi

331 - 704
دیا، سوائے بنی زہرہ کے جنہوں نے اخنس بن شریق کی بات مان لی، جو ان کے درمیان قابلِ احترام آدمی تھا، اور واپس چلے گئے، چنانچہ ایک زہری بھی معرکۂ بدر میں شریک نہیں ہوا۔ اسی طرح بنو عدی ابن کعب کے لوگ بھی نہیں نکلے۔ اور طالب بن ابو طالب مکہ لوٹ جانے کے بارے میں پس وپیش میں تھا، چنانچہ بعض قریشیوں کے ساتھ اس بارے میں اس کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔ قریشیوں نے کہا: اے بنو ہاشم! ہم تمہیں اچھی طرح جانتے ہیں، اگرچہ تم ہمارے ساتھ نکلے ہو، لیکن دل سے تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ہو۔ اس بات پر طالب ناراض ہوا اور مکہ لوٹ جانے والوں کے ساتھ لوٹ گیا۔ مختصر یہ کہ مشرکین کی فوج آگے بڑھی، یہاں تک کہ بدر کے علاقے میں پہنچ گئی۔ [1] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مشورہ: جب بسبس اور عدی رضی اللہ عنہما جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو سفیان اور اس کے قافلے کی خبریں جمع کرنے کے لیے بھیجاتھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آگئے، تو آپؐ مقام صفراء سے جہاں آپ ٹھہرے تھے، آگے چلے، یہاں تک کہ ذَفران نامی وادی میں پہنچے، وہاں آپ نے قیام کیا، اور آپ کو قریش کے بارے میں خبر مل چکی تھی کہ وہ اپنے قافلے کی حمایت کے لیے نکل پڑے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو یہ خبر سنائی اور ان سے مشورہ کیا، پہلے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اچھی بات کہی،پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اچھی بات کہی، پھر مقداد بن عمرو رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: یا رسول اللہ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے جو خبر دی ہے، اس پر عمل کیجیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اللہ کی قسم! ہم آپ سے وہ بات نہیں کہیں گے جو بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہی تھی کہ تم اور تمہارا رب جاؤ، اور جنگ کرو، ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے۔ ہم تو یہ کہتے ہیںکہ آپ اور آپ کا رب آگے بڑھیے، قتال کیجیے، ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال کریں گے، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو دینِ برحق دے کر بھیجا ہے، اگر آپ ہمیں لے کر برک الغماد کی طرف چلیں گے تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صبر وثبات قدمی کے ساتھ آگے بڑھیں گے، یہاں تک کہ آپ وہاں پہنچ جائیں گے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے اچھے کلمات کہے، اور دعا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ مجھے مشورہ دو(آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد انصار سے تھی)اور ایسا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے کہا کہ اس فوج میں انہی کی تعداد زیادہ تھی، اور انہوں نے بیعۃ العقبہ کے وقت کہا تھا: یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !ہم آپ کی حفاظت ویسے ہی کریں گے جیسے اپنی اولاد اور اپنی عورتوں کی کرتے ہیں، دراصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈر تھا کہ کہیں انصارِ مدینہ کے ذہن میں یہ بات نہ ہو کہ وہ آپ کی مدد اس وقت کریں گے جب آپ کا دشمن مدینہ پر حملہ کردے، اور یہ کہ بیعت العقبہ کی دفعات کے مطابق ان پر یہ ضروری نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ان کے شہر سے نکال کر کسی دشمن سے لڑنے کے لیے لے جائیں، اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات کہی تو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! گویا آپ کی مراد ہم ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تو سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ کی تصدیق کی ہے اور ہم نے گواہی دی ہے کہ آپ جو دین لے کر آئے ہیں، وہ برحق ہے اور ہم نے آپ سے فرمانبرداری اور طاعت گزاری کا عہد وپیمان کیا ہے، اس لیے اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ارادے کے مطابق آگے بڑھیے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، اس ذات کی قسم جس نے آپ
Flag Counter