دوسرے کے بال مونڈنے لگے، اور غم کے مارے اُن کا حال یہ تھا کہ قریب تھا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگتے۔
کچھ مسلمان عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں لوٹایا:
صلح نامہ کے لکھے جانے کے بعد وفائے عہد کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اُس مسلمان مرد کو واپس کردیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ سے بھاگ کر آیا۔ البتہ مؤمن عورتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس نہیں کیا۔ امّ کلثوم بنت عقبہ بن ابی معیط رضی اللہ عنہ اُس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اُس وقت وہ سِنّ بلوغت کو پہنچ چکی تھیں۔ اُن کے پیچھے اُن کے گھر والے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں لوٹا دینے کو کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں لوٹایا، اس لیے کہ اُس وقت مندرجہ ذیل آیت نازل ہوچکی تھی:
((يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّـهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّـهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّـهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ)) [الممتحنہ:10]
’’ اے ایمان والو! جب تمہارے پاس مومن عورتیں ہجرت کرکے آئیں، تو تم انہیں آزما لیا کرو، اللہ ان کے ایمان خوب جانتا ہے، پس اگر تمہیں معلوم ہوجائے کہ وہ مومن ہیں، تو انہیں کافروں کے پاس واپس نہ بھیجو، وہ مسلمان عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں ہیں، اور نہ وہ کفار مرد اُن مسلمان عورتوں کے لیے حلال ہیں، اور اُن کافروں نے (شادی میں) جو خرچ کیاہے، انہیں واپس کردو، اور تمہارے لیے کوئی حرج کی بات نہیں کہ ان عورتوں کو ان کا مہر دے کران سے نکاح کرلو، اور تم لوگ اپنی کافر بیویاں اپنے پاس نہ رکھو، اور تم نے (نکاح پر) جو خرچ کیا تھا، اس کا مطالبہ کرو، اور کافروں نے جو خرچ کیا تھا، اس کا وہ مطالبہ کریں، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تمہارے درمیان فیصلہ کرتا ہے، اور اللہ بڑا جاننے والا ہے، بڑی حکمتوں والا ہے۔ ‘‘
چنانچہ اس آیتِ کریمہ کے نازل ہونے کے بعد کوئی بھی ہجرت کی نیت سے آنے والی مسلمان عورت اس کے ولی کے پاس نہیں لوٹائی گئی، اس لیے کہ اس آیت کے بموجب صلح نامہ کی شرطوں کی تخصیص کے طور پر مسلمان عورتیں مشرکوں پر ہمیشہ کے لیے حرام کردی گئیں۔ اسلام کا یہ حکم بلاشبہ مسلمان عورتوں کی قدرومنزلت کی قطعی اور واضح دلیل ہے۔
ابوبصیر اور ابوجندل رضی اللہ عنھما کی جماعت:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں بیس دن قیام کرنے کے بعد جب مدینہ منورہ واپس آگئے تو ابوبصیر رضی اللہ عنہ نامی ایک قرشی مسلمان بھاگ کر مدینہ آجانے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے پیچھے اخنس بن شریق نے بنی عامر بن لؤی کے ایک کافر شخص کو ایک دوسرے آدمی کے ساتھ ایک خط دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا جس میں وفائے عہد کا مطالبہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خط سننے کے بعد ابوبصیر رضی اللہ عنہ کو اُن دونوں کے حوالے کردیا۔ وہ دونوں انہیں لے کر جب ذوالحلیفہ پہنچے تو اپنی سواری سے اُتر کر
|