Maktaba Wahhabi

507 - 704
کھجور کھانے لگے۔ ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے اُن میں سے ایک سے کہا: اے فلاں ! تمہاری تلوار تو بہت عمدہ قسم کی لگ رہی ہے۔ یہ سُن کر اُس نے اپنی وہ تلوار میان سے نکال کر کہا: ہاں، اللہ کی قسم! یہ بہت ہی عمدہ تلوار ہے۔ میں نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے۔ ابوبصیر نے کہا:ذرا مجھے دکھلاؤ تو سہی۔ اُس نے وہ تلوار اُن کے ہاتھ میں دے دی۔ انہوں نے فوراً اُس پر وار کرکے اُسے قتل کردیا، یہ دیکھ کر دوسرا شخص بھاگ کھڑا ہوا، اور دوڑتا ہو ا مدینہ آیا اور مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا: یہ آدمی نہایت خوفزدہ معلوم ہورہا ہے۔ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر کہا: میرا ساتھی قتل کردیا گیا، اور اب میں بھی قتل کردیا جاؤں گا۔اس کے بعد ابوبصیر رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: اے اللہ کے نبی ! اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذمہ داری پوری کردی ہے، آپ نے مجھے اُن کے پاس لوٹا دیا تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے اُن سے نجات دے دی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ہے۔ابوبصیر رضی اللہ عنہ نے جب یہ بات سُنی تو سمجھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ انہیں مشرکوں کے پاس لوٹادیں گے۔ اس لیے فوراً وہاں سے چل پڑے، اور ساحلِ سمندر پر واقع سیف البحر نامی مقام پر آگئے جو شام جانے کے لیے قریشیوں کا راستہ تھا۔ اُدھر ابو جندل بن سہیل رضی اللہ عنہ اپنے رشتہ داروں کے پاس سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے، اور ابوبصیر رضی اللہ عنہ سے آملے۔ اُس کے بعد ایسا ہوا کہ جو کوئی قریشی مسلمان ہوتا، ابوبصیر رضی اللہ عنہ کے پاس آجاتا، یہاں تک کہ اُن کی ایک جماعت بن گئی، اور جوبھی قریشی تجارتی قافلہ اس راستہ سے شام جاتا ہوا ملتا، اُس کو روک کر سب کوقتل کردیتے اور اُن کا مال واسباب چھین لیتے۔ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اور رشتہ کا واسطہ دے کر پیغام بھیجا کہ وہ آئندہ ایسے مسلمانوں کو واپس نہ کریں، بلکہ اُن میں سے جو کوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے گا وہ امن میں ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر ابوبصیر رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کو بھیج دی۔ اُس وقت اللہ عزوجل نے مندرجہ ذیل آیتیں نازل فرمائیں: ((وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا ﴿24﴾ هُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَالْهَدْيَ مَعْكُوفًا أَن يَبْلُغَ مَحِلَّهُ ۚ وَلَوْلَا رِجَالٌ مُّؤْمِنُونَ وَنِسَاءٌ مُّؤْمِنَاتٌ لَّمْ تَعْلَمُوهُمْ أَن تَطَئُوهُمْ فَتُصِيبَكُم مِّنْهُم مَّعَرَّةٌ بِغَيْرِ عِلْمٍ ۖ لِّيُدْخِلَ اللَّـهُ فِي رَحْمَتِهِ مَن يَشَاءُ ۚ لَوْ تَزَيَّلُوا لَعَذَّبْنَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا ﴿25﴾ إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ)) [الفتح: 24- 26] ’’ اور اسی اللہ نے وادیٔ مکہ میں اُن کے ہاتھ تم سے روک دیے، اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے، اِس کے بعد کہ اُس نے تمہیں اُن پر غالب بنادیا تھا، اور اللہ تمہارے کام اچھی طرح دیکھ رہا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفر کیا، اور تمہیں مسجد حرام سے روکا، اور قربانی کے جانور اس کی جگہ پر پہنچنے سے روکے، اور اگر (مکہ میں) چند مومن مرد اور چند مومن عورتیں نہ ہوتیں جن کی تمہیں خبر نہ ہونے کی وجہ سے تم انہیں لا علمی میں روند ڈالتے، تو تمہیں اُن کے بارے میں رنج ہوتا (تو تمہیں لڑائی سے نہ روکا جاتا، اور جنگ اس لیے بھی نہیں ہوئی) تاکہ اللہ جسے چاہے اپنی رحمت (دینِ اسلام) میں داخل کردے، اگر وہ مسلمان الگ ہوتے تو ہم مکہ کے کافروں کو دردناک عذاب
Flag Counter