میں نے پکارا اے ابو رافع! اس نے پوچھا: کون ہے ؟ میں فوراً آواز کی سمت میں دوڑا اور پریشانی کے عالم میں اس پر تلوار چلادی، لیکن اسے کاری ضرب نہیں لگی، وہ چیخنے لگا اور میں کمرہ سے نکل کر قریب ہی ایک جگہ رُک گیا، میں پھر داخل ہوا اور پوچھا: اے ابورافع ! یہ کیسی آواز تھی؟اس نے کہا: تمہاری ماں ہلاک ہو، ایک آدمی نے ابھی تھوڑی دیر پہلے مجھ پر تلوار سے حملہ کیا ہے، میں نے دوبارہ اس پر وار کیا اور اسے کاری ضرب لگائی، لیکن اسے قتل نہیں کرسکا، اس لیے میں نے تلوار کو اس کے پیٹ میں داخل کردیا، جو اس کی پیٹھ سے نکل گئی، تب مجھے یقین ہوگیا کہ میں نے اسے قتل کردیا، پھر میں ایک ایک دروازہ کھولتا ہوا ایک سیڑھی کے پاس پہنچا، اور اپنا پاؤں یہ سمجھ کر رکھا کہ اب زمین آگئی ہے، لیکن چاندنی رات میں گرپڑا، اور میری پنڈلی ٹوٹ گئی۔ میں نے اسے اپنے عمامہ سے باندھ دیا، اور چل پڑا، لیکن دروازہ کے پاس آکر بیٹھ گیا اور سوچا کہ جب تک مجھے یقین نہ ہوجائے کہ میں نے اسے قتل کردیا ہے یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا۔
جب مرغ نے بانگ لگائی تو ایک شخص نے محل کی دیوار کے اوپر سے پکار کر کہا: لوگو! میں تمہیں ابو رافع کی موت کی خبر دیتا ہوں۔ میں وہاں سے چل کر اپنے ساتھیوں کے پاس پہنچا او رکہا یہاں سے جلد نکل چلو،اللہ تعالیٰ نے ابورافع کو قتل کردیا۔ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور اُن کو سارا قصہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا پاؤں پھیلاؤ، میں نے اسے پھیلادیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنا ہاتھ پھیر ا تو وہ ایسا درست ہوگیا جیسے اسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا۔ [1]
ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ اُس نے ابو رافع کو قتل کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تم سب اپنی تلواریں دکھاؤ، جب انہوں نے آپ کو اپنی تلواریں دکھائیں تو آپ نے عبداللہ بن اُنیس رضی اللہ عنہ کی تلوار دیکھ کر کہا: اسی نے اسے قتل کیا ہے، اسی میں خون کا اثر دیکھ رہا ہوں۔ [2]
سریّہ محمد بن مسلَمہ رضی اللہ عنہ :
محرم سن 6 ہجری کے دس ایام گزرجانے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ انصاری رضی اللہ عنہ کو تیس گھوڑسواروں کے ساتھ قبیلۂ بنی بکر پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا، جو بصرہ کے راستے میں مدینہ سے سات دن کی دوری پر نجد کے علاقے ضریہ میں رہتا تھا۔ یہ صحابہ کرام رات میں چلتے اور دن میں سخت گرمی سے بچنے کے لیے کہیں چھپ جاتے تھے، تاکہ دشمن کے پاس اچانک پہنچ جائیں۔ وہاں پہنچ کر ان پر اچانک حملہ کردیا اور ان میں سے دس کو قتل کردیا اور باقی اپنے گھر چھوڑ کر بھاگ پڑے، اس لیے کوئی جنگ نہیں ہوئی، اور مسلمانوں نے ان کے اونٹوں اور بکریوں پر قبضہ کرلیا، او رانیس راتوں کے بعد مدینہ واپس پہنچ گئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اونٹوں اور بکریوں کے پانچ حصے لگائے، پانچواں حصہ اپنے پاس رکھا، اور باقی ان مجاہدین پر تقسیم کردیا، اور ایک اونٹ دس بکریوں کے برابر مانا گیا، اور اونٹوں کی تعداد ایک سو پچاس اور بکریوں کی تعداد تین ہزار تھی۔ [3]
|