Maktaba Wahhabi

173 - 704
دعوتِ اسلامیہ خفیہ طورپر زمین پر پہلے مسلمان: توحیدِ خالص اور ایک اللہ کی عبادت کی دعوت دینا، اور شرک باللہ کا انکار اہلِ مکہ کے درمیان آسان نہ تھا جن کے دلوں میں کفر اور شرک باللہ کی جڑیں زمانۂ قدیم سے گہری تھیں،اور اس پر مستزاد اُن کا کبر وغرور اور انا کی بیماری میں مبتلا ہونا جس کے سبب وہ کلمۂ حق کو سننے کی قابلیت کھوچکے تھے، اور اس لیے بھی کہ اس کلمۂ حق کی ضربِ شدید پورے عرب کی سیادت وقیادت پر لگتی تھی۔ ابن اثیر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ خدیجہ رضی اللہ عنھا بالاتفاق سرزمین عرب پر اسلام قبول کرنے والی پہلی بنتِ آدم تھیں۔ ان سے پہلے کسی مرد یا عورت نے اسلام قبول نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوآنے والے مشکل حالات کا م کمل ادراک تھا، اور خوب جانتے تھے کہ مشرکینِ قریش کے درمیان علی الاعلان دعوت کا کام شروع کردینا بہت زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت ودانائی کا تقاضا یہی سمجھا کہ فی الحال دعوت کا کام خفیہ طور پر کیا جائے ، یہاں تک کہ مکہ کی سرزمین علانیہ دعوت کے لیے سازگار ہوجائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی مناسب سمجھا کہ پہلے دعوت کا کام اپنے ان قریب ترین رشتہ داروں کے درمیان کریں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وکردار سے بخوبی واقف تھے، اور جانتے تھے کہ آپ کبھی بھی اللہ جل جلالہ کے بارے میں کوئی من گھڑت بات نہیں کہیں گے، اس لیے کہ ان کی نظرمیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اب تک کی پوری زندگی میں ایک بار بھی جھوٹ نہیں بولاتھا، اوراسی لیے اہلِ مکہ نے آپ کو ’’الصادق الامین‘‘ کا لقب دے دیا تھا۔ سیّدہ خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا : غارِ حرا میں پہلی وحی کے نازل ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ سے قریب ترین انسان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی ، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنھا تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب غار حرا سے واپس آئے، اور سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کو جبریل علیہ السلام کی آمد اور نزولِ وحی کی خبر دی، اُسی وقت وہ ایمان لے آئیں ۔ اور ابتدائے وحی کے ذکر کے وقت میں لکھ آیا ہوں کہ وہ توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اس عظیم واقعہ کو قبول کرنے، اور اس لڑی میں پہلے موتی کی حیثیت سے جُڑ جانے کے لیے پہلے سے ہی ذہنی طور پر تیار تھیں ، چنانچہ انہوں نے فوراً ہی اسلام کی دعوت قبول کرلی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر اپنی آنکھوں سے لگالیا، اور انہیں وضو کرنا سکھایا، پھر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی ، جیسا کہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا تھا۔ اس طرح سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا آپ پر ایمان لانے والی پہلی بنتِ آدم ہوئیں ۔ [1]
Flag Counter