سریّہ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ (سعد بن بکر) :
ماہ شعبان سن 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو ایک سو مجاہدین کے ساتھ مقامِ فدک (مدینہ سے چھ دن کی مسافت پر) میں مقیم بنی سعد بن بکر کی طرف بھیجا، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی تھی کہ ان کے پاس مقاتلین کی ایک جماعت ہے جنہیں بھیج کر وہ یہودِ خیبر کی مدد کرنا چاہتے ہیں، یہ فوجی دستہ رات میں سفر کرتا تھا، اور دن میں کہیں چھپ جاتا تھا، یہاں تک کہ خیبر اور فدک کے درمیان واقع ہجج نامی کنویں کے پاس پہنچے، وہاں انہیں ایک جاسوس مل گیا، جسے بنو سعد نے خیبر بھیجا تھا، تاکہ یہودِ خیبر سے وہ اس بارے میں گفت وشنیدکرے کہ بنو سعد کے لوگ ان کی مدد کے لیے اس شرط پر تیار ہیں کہ اہلِ خیبر انہیں کھجوروں کا ایک حصہ دیا کریں جیسا کہ انہوں نے ان کے علاوہ دوسروں کے ساتھ کیا ہے۔
سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس جاسوس کو اس شرط پر امن دینے کا وعدہ کیا کہ وہ بنی سعد کے گھروں اور ان کے جانوروں اور چوپایوں کی جگہ بتادے، اس نے مجاہدین کی اس شرط کے مطابق رہنمائی کی اور انہوں نے ان پر اچانک حملہ کردیا، اور ان کے پانچ سو اونٹ اور دو ہزار بکریوں پر قبضہ کرلیا، اور بنی سعد کے لوگ اپنی عورتوں کو لے کر بھاگ پڑے، ان کا سردار وبر بن عُلَم تھا۔ علی رضی اللہ عنہ نے پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک اونٹنی الگ کرلی، جس نے کچھ ہی دنوں قبل ایک بچہ جنم دیا تھا، پھر انہوں نے پانچواں حصہ الگ کیا، اور باقی اموالِ غنیمت کو مجاہدین میں تقسیم کردیا۔ [1]
سریّہ عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ :
ابو رافع سلام بن ابی الحقیق کے قتل کیے جانے کے بعد یہودِ خیبر نے اپنا سردار اُسَیر بن زرام کو بنالیا، یہ شخص غطفان اور دیگر قبائل کے پاس گیا اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے اُبھارا اور جمع کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ خبر ملی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو تین دیگر مجاہدین کے ساتھ ماہِ رمضان میں خفیہ طور پر بھیجا، انہوں نے وہاں پہنچ کر اس کے بارے میں دریافت کیا، تو انہیں پتہ چلا کہ اس نے اپنی قوم سے کہا ہے: میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ وہ کروں گا جو مجھ سے پہلے کسی نے اس کے ساتھ نہیں کیا۔ میں قبیلۂ غطفان کے پاس جاؤں گا، اور انہیں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے جنگ کرنے کے لیے جمع کروں گا، چنانچہ اس نے اس کے لیے کوشش بھی کی۔
تب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیس انصار مجاہدین کو اس پر حملہ کرنے کے لیے تیار کیا، اور ان کا قائد عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو بنایا، یہ مجاہدین اُسیر کے پاس گئے، اور کہا: ہم امن میں ہوں گے جب تک تمہارے سامنے اس بات کو نہ پیش کردیں جس کے لیے ہم آئے ہیں،اس نے کہا: ہاں، اور یہی شرط میری بھی ہے، تو مجاہدین نے اس کی شرط کو منظور کرلیا، اور اس سے کہاکہ اس کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کے ارادے سے باز آجائے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چل کر وہ یہ بات کرلے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے خیبر کے لیے اپنا عامل مقرر کردیں، اور اس کے ساتھ اچھامعاملہ کریں، تاکہ اہل خیبر سلامتی کے ساتھ زندگی گزارتے رہیں، اُسیر کو یہ بات اچھی لگی اور وہ تیس دیگر یہود کے ساتھ مدینہ کی طرف چل پڑا، اور ان میں سے
|