((مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ)) [الفتح:29]
’’ محمد اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ اُن کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے لیے بڑے سخت ہیں، اور آپس میں نہایت مہربان ہیں، آپ انہیں رکوع اور سجدہ کرتے دیکھتے ہیں، وہ لوگ اللہ کی رضا اور اس کے فضل کی جستجو میں رہتے ہیں۔ ‘‘
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اپنے بال بچوں کے لیے رحیم وشفیق نہیں دیکھا۔ [1]
تواضع:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ متواضع اور سب سے زیادہ تکبر سے بعید تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اپنے لیے کھڑا ہونے سے منع فرماتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہوں کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فقیروں کے ساتھ بیٹھتے تھے، اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے، اپنے کپڑے خود سیتے تھے، اپنی بکری کا دودھ دُوہ لیتے تھے، اور اپنی خدمت آپ کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مریضوں کی تیمار داری کرتے تھے، جنازوں میں حاضر ہوتے تھے، گدھے پر سوار ہوتے تھے، اور غلاموں کی دعوت قبول کرتے تھے۔ محاصرئہ بنی قریظہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر سوار تھے جسے ایک رسّی کی لگام لگی ہوئی تھی، اور اُس پر پتوں سے بھری ایک زین پڑی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غایت درجہ تواضع کا حال یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا: میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرو جس طرح نصاریٰ نے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ سے کام لیا۔ میں تو ایک بندہ ہوں۔ اس لیے تم لوگ مجھے اللہ کا بندہ اور اس کا رسول کہو۔ [2]
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ایک عورت آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ اس کی ایک ضرورت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ منورہ کے کسی راستہ میں بیٹھ جاؤ، میں وہاں تمہاری بات سننے کے لیے بیٹھ جاؤں گا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ بیٹھ گئے یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری ہوئی۔ [3]
عدل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گفتار وکردار اور اوامر ونواہی میں نہایت عادل اور انصاف پسند تھے۔ قریش کے درمیان جب حجر اسود کو اس کی جگہ پر رکھنے کے سلسلہ میں اختلاف ہوا تو سب نے اُس شخص کو حَکَم وفیصل بنانے پر اتفاق کیا جو سب سے پہلے حرم میں داخل ہو کر اُن کے سامنے آئے گا۔ اللہ کا کرنا، وہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے، یہ بات نبوت سے پہلے کی ہے۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر کہا: یہ محمد الأمین ہیں، ہم لوگ اِن کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ [4]
|