تم میں سے جو کوئی انہیں اپنا دوست بنائے گا وہ بے شک انہی میں سے ہوجائے گا، بے شک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا، اس لیے آپ ان لوگوں کو جن کے دلوں میں نفاق کی بیماری ہے، دیکھ رہے ہیں کہ ان میں مل جانے کے لیے جلدی کررہے ہیں، کہتے ہیں، ڈر ہے کہ ہمیں کوئی مصیبت لاحق ہوجائے گی، پس توقع ہے کہ اللہ (مسلمانوں کے لیے) فتح یا اپنے پاس سے کوئی اورچیز بھیج دے، پھر وہ ان باتوں پر نادم ہوں جنہیں اپنے دلوں میں چھپا رکھا تھا، اور ایمان والے کہیں گے، کیا یہی ہیں وہ لوگ جو اللہ کے نام کی بڑی شدید قسمیں کھایا کرتے تھے کہ وہ لوگ یقینا تمہارے ساتھ ہیں، ان کے اعمال ضائع ہوگئے اور گھاٹا اُٹھانے والے ہوگئے۔ اے ایمان والو! تم میں سے جو کوئی اپنے دین سے پھر جائے گا، تو اللہ تعالیٰ عنقریب ایسے لوگوں کو لائے گا، جن سے اللہ محبت کرے گا، اور وہ اللہ سے محبت کریں گے، جو مومنوں کے لیے نرم خواور کافروں کے لیے سخت ہوں گے، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے، اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ بڑی بخشش والا، بڑا علم والا ہے۔بے شک تم لوگوں کے دوست اللہ اور اس کے رسول اور مومنین ہیں، جو نمازو ں کو صحیح طریقے پر ان کے اوقات میں ادا کرنے کی پابندی کرتے ہیں، اور زکاۃ ادا کرتے ہیں، اور اللہ کے لیے خشوع وخضوع اختیار کرنے والے ہوتے ہیں، اور جو اللہ اور اس کے رسول اور مومنوں سے دوستی رکھے گا، تو بے شک اللہ والے ہی غالب ہوں گے۔ ‘‘ [1]
بنی قینقاع سے متعلق ابن ابی کے موقف کی مزید تفصیلات:
ابن اُبی نے جب ان یہود کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کی تو آپ انہیں قتل کرنے سے رُک گئے اور حکم دیا کہ انہیں مدینہ سے نکال دیا جائے، ابن ابی دوبارہ اپنے دیگر حلیفوں کے ساتھ آیا، اُس وقت یہود نکل رہے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنی چاہی کہ انہیں ان کے گھروں میں رہنے دیا جائے، اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر عویم بن ساعدہ رضی اللہ عنہ کو پایا، جب اس نے داخل ہونا چاہا تو عویم رضی اللہ عنہ نے اسے روک دیا اور کہا: مت داخل ہو، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں اجازت دے دیں، یہ سن کر ابن ابی نے ان کو دھکّا دیا، تو عویم رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ سختی پر اُتر آئے، یہاں تک کہ ابن اُبی کے چہرے کو دیوار سے ٹکرا کر زخمی کردیا، اور اس کا خون بہنے لگا، تب اس کے یہود حُلفاء چیخنے لگے اور کہنے لگے: اے ابو الحباب! ہم ایسے گھر میں ہرگز نہیں رہیں گے جس میں مسلمانوں نے آپ کے چہرے کو زخمی کردیا ہے۔[2]
غنائمِ بنی قینقاع:
جب بنو قینقاع نے نیچے اُتر کر اپنے قلعہ کادروازہ کھولا، اور باہر نکل گئے، تو محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے ان کے تمام مال واسباب کو اپنے قبضے میں کرلیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہتھیاروں میں سے تین’’ قسِیّ‘‘، دو زِرہیں، تین تلوار اور تین نیزے لے
|