Maktaba Wahhabi

420 - 704
مہاجرین کے درمیان اس مال کو تقسیم کردوں جو اللہ نے مجھے بنی نضیر کی طرف سے عطا کیا ہے اور اگر چاہو تو صرف مہاجرین کی مدد کروں اور وہ تمہارے گھروں سے نکل کر اپنے لیے گھر بنالیں، سعد بن عبادہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ ! بہتر یہ ہے کہ آپ اسے مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیجیے، اور وہ ہمارے گھروں میں پہلے کی طرح رہائش پذیر رہیں۔ انصارنے بیک آواز کہا: اے اللہ کے رسول! ہم راضی ہوگئے اور آپ کی اس رائے کو تسلیم کرلیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا کی اور کہا: اے اللہ! انصار اور ابنائے انصار پر تو رحم کر، بنی نضیر کے مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کے درمیان تقسیم کردیا، اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہیں دیا، سوائے ابو دجانہ اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہما کے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فقر ومحتاجی کے سبب اس مال میں سے کچھ عطا کیا۔ یہ غزوہ ماہِ ربیع الأول سن چار ہجری میں واقع ہوا تھا، اوراسی کی تفصیل بیان کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے پوری سورۃ الحشر نازل فرمائی، جس میں اللہ نے مدینہ سے یہودیوں کو نکالے جانے، منافقین کا پردہ فاش کرنے، اور مال فئ کے احکام بیان کیے ہیں، اور مہاجرین وانصار کی تعریف کی ہے، نیز بیان کیا ہے کہ جنگی مصلحت کے تقاضے کے مطابق دشمن کی سرزمین میں درختوں کا کاٹنا اور جلانا جائز ہے، جیساکہ بنی نضیر کے ساتھ کیا گیاتو وہ مجبور ہوکر صلح کرنے اور مدینہ سے نکل جانے پر آمادہ ہوگئے۔ غزوۂ بدر ثانیہ: غزوۂ احد کے بعد ایک سال گزرگیا اور شعبان کا مہینہ آگیا، اورایک رائے کے مطابق ماہ ذی القعدہ سن چار ہجری داخل ہوگیا اور وہ وقت آگیا جس کی تعیین ابوسفیان نے احد سے مکہ لوٹتے ہوئے کی تھی، اورکہا تھا کہ اب سے ایک سال بعد ہمارے اور تمہارے درمیان دار الصفراء جنگ کا مقام وموعد رہے گا، ہم وہاں ملیں گے اور جنگ کریں گے، تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے کہا تھا: ہاں، ان شاء اللہ۔ لیکن قحط سالی کے سبب قریشیوں کے اقتصادی حالات دگرگوں ہوگئے، اور ان کی آمدنی کے ذرائع کم ہوگئے، اس لیے ان میں اس متعین وقت پر جنگ کے لیے آنے کی طاقت نہ رہی، تو ابوسفیان نے مسلمانوں کو دھوکا دینے اور انہیں جنگ کے لیے نکلنے سے باز رکھنے کے لیے نعیم بن مسعود نامی ایک آدمی کو کرایہ پر رکھا اور اس سے کہا کہ وہ مدینہ جائے اوروہاں لوگوں میں اس بات کو خوب پھیلائے کہ قریشیوں نے مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے ایک ایسا لشکرِ جرار جمع کرلیا ہے جیسا آج سے پہلے نہیں دیکھا گیا۔ نعیم مدینہ گیا اور مسلمانوں میں اس مبغوض جھوٹ کواتنا پھیلایا کہ مسلمانوں کے دل مرعوب ہوگئے اور معنوی طور پر ان کی قوت بہت کمزور ہوگئی، جس کے نتیجے میں وہ سوچنے لگے کہ مشرکوں کی فوج کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامِ بدر کی طرف جانے کی ان کے اندر طاقت نہیں۔ اسی طرح یہود اور منافقین نے بھی اسلامی فوج کی معنوی قوت کو کمزور کرنے کی کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی، اور مسلمانوں کے درمیان درپردہ یہ بات پھیلانے لگے کہ محمد مکی فوج کے سامنے ہرگز نہیں ٹک سکتا، اور اسے ہرگز غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہوگیا کہ یہ دشمنانِ دین کی ایک سازش ہے تاکہ مسلمانوں کو مدینہ میں ہی رُکے رہنے پر مجبور کردیا جائے، لیکن یہ خبر عام مسلمانوں میں بہت تیزی کے ساتھ پھیل چکی تھی، اس لیے ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
Flag Counter