Maktaba Wahhabi

421 - 704
ملے اور کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ اپنے دین کوغالب کرکے رہے گا، اور اپنے نبی کو عزت دے گا، ہم نے کفارِ مکہ سے ایک وعدہ کررکھا ہے جس کے خلاف ہم نہیں کرنا چاہتے، ورنہ وہ سمجھیں گے کہ مسلمان بزدل ہیں، اور ہم سے ڈرگئے ہیں، اس لیے آپ ان کے وعدے کے مطابق ضرور چلیں، اللہ کی قسم! یقینا اسی میں بھلائی ہے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں ضرور نکلوں گا چاہے میرے ساتھ ایک آدمی بھی نہ نکلے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہزار پانچ سو افراد پر مشتمل ایک فوج لے کر چل پڑے، آپ کے ساتھ دس گھوڑے تھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے اٹھا رکھا تھا، اور آپ نے مدینہ میں عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، جب آپ مقامِ بدر پر پہنچے تووہاں کسی قرشی کو نہیں پایا، آپ وہاں آٹھ دن قیام پذیر رہے، اور مشرکوں کا انتظار کرتے رہے۔ اُدھر ابوسفیان مکہ سے دو ہزار فوجی اور پچاس گھوڑوں کے ساتھ نکلا، اورجب مقام مر الظہران پر پہنچا (جو مکہ سے قریب ہے) تو ابوسفیان نے اپنے لوگوں سے کہا کہ تمہارے لیے جنگ کے لیے ایک ایسے سال میں نکلنا مناسب ہے جس میں درخت ہریالے ہوں اور دودھ وافر مقدار میں ملتا ہو، اورتمہارا یہ سال قحط زدہ ہے، اس لیے میں نے مناسب سمجھا ہے کہ تمہیں لے کر مکہ واپس چلا جاؤں، چنانچہ مکہ کی فوج واپس چلی گئی، اوراہل مکہ نے بطور استہزاء اپنی فوج کا نام جیش السویق (یعنی ستووں کی فوج) رکھ دیا، اس طرح انہوں نے وعدہ خلافی کی، اور عربوںمیں ان کی شہرت خراب ہوگئی، اور غزوہ احد میں ایک گونا کامیابی کے نام پر ان کے فخر ومباہات کا اثر ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کی حیلہ سازی اورمسلمانوں کی ہمت توڑنے کی سازش کا بھانڈا پھوڑنے کے لیے قرآن کریم میں نازل فرمایا: ((الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّـهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ فَانقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٌ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ﴿174﴾ إِنَّمَا ذَٰلِكُمُ الشَّيْطَانُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ)) [آلِ عمران: 173-175] ’’ جن سے لوگوں نے کہا کہ کفار تم سے جنگ کے لیے جمع ہوگئے ہیں، تم ان سے ڈر کر رہو، تو اس خبر نے ان کا ایمان بڑھادیا، اور انہوں نے کہا کہ اللہ ہمارے لیے کافی ہے، اور وہ اچھا کارساز ہے، پس وہ اللہ کی نعمت اور فضل لے کر لوٹے، انہیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی، اور انہوں نے رضائے الٰہی کی اتباع کی، اور اللہ عظیم فضل والا ہے،بے شک وہ شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، پس تم لوگ اس سے نہ ڈرو، اور اگر مومن ہوتو مجھ سے ڈرو۔ ‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ ان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں: یعنی وہ مسلمان جنہیں کافروں نے دشمنوں کی ایک بڑی فوج سے ڈرایا تو انہوں نے اس کی پروا نہیں کی، بلکہ اللہ پر توکل کیا، اور اس سے مدد مانگی اور کہا: ہمارے لیے اللہ کافی ہے، اور وہ بہتر کارساز ہے، یہ بات ابراہیم علیہ السلام نے کہی تھی جب انہیں آگ میں ڈالا گیا، اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی تھی جب دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں سے کہا کہ کفارِ قریش نے تم سے جنگ کرنے کے لیے ایک بہت بڑی فوج کو جمع کیا ہے، اس لیے تم لوگ ڈر کر رہو اور ان سے
Flag Counter