Maktaba Wahhabi

464 - 704
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرنی چاہی، تو آپ نے ان کو اجازت دے دی، انہوں نے نباش بن قیس کو اُتر کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے کے لیے کہا، وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گھڑی بات کرتا رہا، اور کہا کہ ان کے ساتھ بھی بنونضیر جیسا معاملہ کیا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کردیا، اس نے پھر کہا: ہماری جان بخشی کردی جائے اور ہماری عورتیں اور بچے ہمیں دے دیے جائیں، ہمیں اونٹوں پر لادے گئے مال واسباب کی ضرورت نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار کردیا، اور کہا کہ اب تو انہیں میرا فیصلہ ماننا ہی پڑے گا۔ ان کے سردار کعب بن اسد نے کہا: اے جماعتِ بنی قریظہ ! اللہ کی قسم! تم جانتے ہو کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے نبی ہیں، اور ہمیں صرف حسدنے اس کے دین میں داخل ہونے سے روک رکھا ہے، اورمیں بدعہدی کا مخالف تھا، لیکن ہمیں اس بدبخت کی نحوست لگ گئی ہے جو ہمارے پاس بیٹھا ہوا ہے (یعنی حُیَيْ بن اخطب) اس لیے آؤہم اس کی اتباع کرلیں، اس کی بات مان لیں، اور اس پر ایمان لے آئیں، تاکہ ہم اپنی جانوں، اپنے بچوں، اپنی عورتوں اور اپنے مال واسباب کوبچالیں،لیکن ان یہود نے اس کی بات نہیں مانی، تب کعب نے کہا: پھر آؤ، پہلے ہم اپنے بچوں اور عورتوں کو قتل کردیں، پھر تلوار لے کر محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھیوں کے سامنے نکل پڑیں، اگر ہم قتل کردیے جائیں گے تو ہمارے پیچھے کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہے گی جس کی ہمیں فکر ہوگی، اور اگر ہم کامیاب ہوگئے تو دوبارہ عورتیں اور بچے حاصل کرلیں گے، لیکن یہود نے اس کی یہ بات بھی رد کردی، تب اس نے کہا: اب صرف ایک رائے رہ گئی ہے، اگر تم نے اُسے بھی قبول نہیں کیا تو تم جانو۔ انہوں نے کہا: وہ کیا ہے ؟کہا آج کی رات سنیچر ہے، اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اس کے ساتھی ہماری طرف سے مطمئن ہیں کہ آج کی رات ہم ان سے قتال نہیں کریں گے، اس لیے ہم نکل پڑیں، شاید انہیں دھوکا دے کر شکست دے سکیں۔ اسی رات سَعِیّہ کے دونوں بیٹے ثعلبہ اور اُسید اور ان کے چچا اسد بن عبید قلعہ سے نیچے اُتر آئے اور اسلام قبول کرلیا، جس کے نتیجے میں ان کی جانیں، ان کے بال بچے او ران کے مال واسباب محفوظ ہوگئے۔ اسی رات سعیہ کے بیٹوں کے ساتھ عمرو بن سعدیٰ نکلا اور مسجد نبوی میں آیا اور وہیں صبح تک سویا رہا پھر پتہ نہیں چلاکہ اس کا کیا ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اس کو اس کے وفائے عہدکے سبب نجات دے دی (اس لیے کہ وہ بدعہدی کرنے والوں کے ساتھ نہیں تھا۔ ) [1] بنو قریظہ نے ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ مانگا: جب محاصرہ ان پر شدید تنگ ہوگیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر بھیجی کہ وہ ہمارے پاس ابو لبابہ بن عبدالمنذر کو بھیج دیں، تاکہ ہم ان سے اپنے بارے میںمشورہ کریں۔ ابو لبابہ رضی اللہ عنہ بنی عمرو بن عوف میں سے تھے جو بنوقریظہ کے حلیف اور ان کے بہت ہی خیر خواہ تھے، اور ان کا مال وعیال انہی کے علاقے میں تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تم اپنے حلیفوں کے پاس جاؤ، اس لیے کہ انہوں نے قبیلۂ اوس میں سے تم ہی کو بلایا ہے، جب وہ ان کے پاس پہنچے، تو تمام مرد ان کے اردگرد کھڑے ہوگئے، اور عورتیں اور بچے دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، یہ کیفیت دیکھ کر ابو لبابہ رضی اللہ عنہ متاثر ہوگئے، بنوقریظہ انہیں چاروں
Flag Counter