Maktaba Wahhabi

390 - 704
بدگمانیوں میں مبتلا تھی، کہتے تھے کہ کیا ہمیں بھی کسی بات کا اختیار ہے؟ آپ کہہ دیجیے کہ تمام امور اللہ کے اختیار میں ہیں۔ ‘‘ اوروہ لوگ جن کو صرف اپنی فکر تھی اور مسلمانوں پر نازل شدہ مصیبت اور اسلام کے انجام کی کوئی فکر دامن گیر نہیں تھی وہ منافقین تھے۔ مشرکین جب پہاڑ پر چڑھ گئے اور اس کے ایک حصہ پر قابض ہوگئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: انہیں مار بھگاؤ، سعد نے کہا: میں اکیلے کیسے انہیں مار بھگاؤں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار کہی، تو سعد رضی اللہ عنہ نے اپنے تھیلے سے ایک تیر نکالا اور اس کے ذریعہ ایک کافر کو قتل کردیا۔ سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے پھر وہی تیرلیا جسے میں پہچانتا تھا، اور اس کے ذریعہ دوسرے کافر کو مارا، اور اسے بھی قتل کردیا، ا س کے بعدوہ لوگ اپنی جگہ سے نیچے بھاگ گئے تو میں نے کہا: یہ تیر تو بڑا ہی مبارک ثابت ہوا، چنانچہ اسے میں نے اپنے تھیلے میں رکھ لیا، وہ تیر زندگی بھر سعد رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، اور ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹوں کے پاس۔[1] حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور ان کے والد: حذیفہ او ران کے والد رضی اللہ عنہما اس معرکہ میں شریک تھے، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ مسلمان ان کے والد کو مشرک سمجھ کر قتل کرنا چاہتے ہیں، تو انہوں نے کہا: اے اللہ کے بندو! یہ میرے والد ہیں، لیکن مجاہدین نے ان کی بات نہیں سمجھی اور انہیں قتل کردیا، حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تم سب کو معاف کردے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت دینی چاہی، توحذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے ان کی دیت مسلمانوں پر صدقہ کردی، اس بات سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہ میں حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مقام بلندہوگیا۔ [2] سعد ابن الربیع رضی اللہ عنہ کی وصیت: زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مجھے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے دن سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کو تلاش کرنے کے لیے بھیجا اور کہا: اگر وہ تمہیں مل جائے تو میرا سلام کہنا اور کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھ رہے ہیں کہ تم کیسے ہو؟ زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں مقتولین کے درمیان گھوم کر انہیں تلاش کرنے لگا، یہاں تک کہ میں نے انہیں پالیا، اس وقت وہ اپنی زندگی کی آخری سانس لے رہے تھے، ان کو ستر کاری ضربیں لگی تھیں۔ میں نے کہا: اے سعد! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم کو سلام بھیجا ہے، اور کہا ہے: مجھے بتاؤ کہ تم کس حال میں ہو؟ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پربھی سلام ہو، ان سے کہنا: اے اللہ کے رسول! میں جنت کی خوشبو محسوس کررہا ہوں، اور میری قوم انصار سے کہنا: اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمہارے لیے کوئی عذر معافی کا نہیں ہوگا، اگر دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گیا اورتمہارے درمیان ایک آنکھ بھی دیکھنے والی موجود ہے۔ اور اس کے بعد ہی فوراً انہو ں نے اپنی جان جاں آفرین کے حوالے کردی۔ [3]
Flag Counter