چوتھا باب جنازہ اٹھانے اور اس کے ساتھ چلنے کے بیان میں جنازہ کے اٹھانے میں کسی قسم کی کچھ وناء ت نہیں ہے، خود حضور سرورِ عالم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ اٹھایا ہے اور بڑے بڑے جلیل القدر صحابہص اور تابعین اور ائمہ دین نے جنازہ اٹھایا ہے۔ پس جو شخص جنازہ کے اٹھانے میں وناء ت سمجھے وہ بلاشبہ ضعیف الا یمان ہے۔ جنازہ کے ساتھ چلنا ایک حق ہے ، منجملہ ان حقوق کے جو مسلمانوں میں باہم ایک دوسرے پر واجب ہیں، علاوہ اس کے جنازہ کے ساتھ چلنے میں بہت بڑا اثواب ہے ۔ حضرت ابر ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں باہم ایک دورسرے پر پانچ حق واجب ہیں، سلام کاجواب دینا، مریض کی عیادت کرنی، جنازہ کے ساتھ چلنا، دعوت کو قبول کرنا، چھینکنے والے کا جواب دینا۔ روایت کیا اس کو بخاری اور مسلم نے۔ نیز حضر ت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شخص ایمان کا کام سمجھ کر اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے کسی مسلمان کے جنازے کے ساتھ جائے، اور برابر اس کے ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کے جنازہ کی نماز پڑھے۔ اور اس کے دفن سے فارغ ہو تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہوگا ۔اور جو شخص اس کے جنازے کی نماز پڑھ کر دفن سے پہلے ہی لوٹ آئے، تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا۔(بخاری ومسلم) سبحان اللہ جنازے کے ساتھ جانے میں کتنا بڑا ثواب ہے،مگر بہت سے مسلمان اپنی غفلت کی وجہ سے اتنے بڑے ثواب سے اپنے آپ کو محروم رکھتے ہیں۔ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کو جنازہ کے آگے پیچھے دائیں بائیں ہر طرف چلنا جائز ہے رہی یہ بات کہ افضل کیا ہے؟ جنازہ کے آگے چلنا یا پیچھے ،سوا س کا بیان آگے آتا ہے۔ جنازہ کے ساتھ جانے والوں کو جنازہ سے نہ زیادہ آگے رہنا چاہیے اور نہ زیادہ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |