اس بھائی چارہ کا مقصد اعلیٰ وادنیٰ کے درمیان تعاونِ باہمی کا جذبہ پیدا کرنا تھا، تاکہ ادنیٰ کی حالت میں اعلیٰ کے ذریعہ سُدھار پیدا ہو، اور اعلیٰ کو ادنیٰ کے ذریعہ مدد ملے، اور اس اسلامی بھائی چارہ کی بنیاد پر آپس میں کوئی حق میراث ثابت نہیں ہوتا تھا۔
مدینہ میں مہاجرین وانصار کے درمیان بھائی چارہ:
مہاجرین جب مکہ سے مدینہ آئے تو انہیں گوناگوں اقتصادی اور سماجی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جنہیں حل کرنے کی فوری ضرورت تھی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین اور انصار صحابہ کرام کے درمیان ایمان واسلام کی بنیاد پر بھائی چارہ قائم کیا، تاکہ مہاجرین کے ذہنوں سے غربت واجنبیت اور اہل واقارب کی دوری کا احساس ختم ہو، اور ان میں سے بعض بعض کے دست وبازو بن جائیں۔
انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے مہاجربھائیوں کے لیے اپنی طرف سے کسی طرح کا بخل نہیں دکھایا، بلکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیشکش کی کہ آپ اُن کے کھجور کے باغات ان کے اور مہاجر بھائیوں کے درمیان تقسیم کردیں، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اپنے باغات کی نگرانی خود کریں، اور انہیں اپنے لیے باقی رکھیں، اور اپنے مہاجر بھائیوں کو کھجور کا ایک حصہ دیا کریں۔ [1]
انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ پیشکش بھی کی کہ آپ ان کے مکانات ان سے لے کر ان میں جس طرح چاہیں تصرف کریں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں کلمۂ خیر کہااور مہاجرصحابہ کرام کے لیے ایسی زمینوںمیں گھر بنائے جنہیں انصار نے ان کے لیے ہبہ کیا تھا، نیز ایسی زمینوں میں جن کا کوئی مالک نہیں تھا۔[2]
انصار کے اس برادرانہ وکریمانہ برتاؤ کا مہاجرین کے دل ودماغ پر بہت ہی اچھا اثرپڑا، جیساکہ امام احمد رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ مہاجرین نے کہا: یارسول اللہ! ہم نے حسنِ برتاؤ میں آج تک انصارِ مدینہ جیسے لوگ نہیں دیکھے کہ اگر کسی کے پاس تھوڑا ہے تو اس میں ہمیں شریک کرلیا، اور زیادہ ہے تو اس میں سے دل کھول کر ہمارے اوپر خرچ کیا ہے، ہمارے ان بھائیوں نے ہماری ضرورتیں پوری کیں، اور ہمیں اپنی خوشیوں میں شریک کیا، یہاں تک کہ ہمیں ڈرہونے لگا کہ یہ حضرات پورا کا پورا ثواب لے لیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہیں ہوگا جب تک تم لوگ اُن کی تعریف کرتے رہوگے اور اُن کے لیے دعائے خیر کرتے رہوگے۔ [3]
امام بخاری رحمہ اللہ کی روایت کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار ومہاجرین کے درمیان اس بھائی چارہ کی داغ بیل ہجرت کے پانچ ماہ بعدانس بن مالک رضی اللہ عنہ کے گھر میں ڈالی تھی ۔ [4]
|