بھائی چارہ کے اسی عمل کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عبدالرحمن بن عوف اور سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ کے درمیان اخوت قائم کی، تو انصاری بھائی نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو پیشکش کی کہ وہ اُن کے اہل ومال کا آدھا حصہ لے لیں، عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ تمہارے اہل ومال میں برکت دے، مجھے بازار کا راستہ دکھادو، چنانچہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو بطور نفع کچھ پنیر اور گھی حاصل ہوا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چند دنوں کے بعد دیکھا تو ان کے جسم پر زرد قسم کی خوشبو کے آثار پائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے عبدالرحمن! یہ کیسی خوشبو ہے؟، انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اسے مہر میں کیا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: ایک گٹھلی کے برابر سونا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کرو، چاہے ایک ہی بکری ذبح کرکے۔[1]
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ اور ابوطلحہ، سلمان فارسی اور ابو دردائ، ابو بکر اورخارجہ بن زید، عمر بن خطاب اور ایک انصاری صحابی، عثمان اور بنو زُریق کے ایک آدمی، اور زبیر اور کعب بن مالک کے درمیان رشتۂ اخوت قائم کیا۔( رضی اللہ عنھم اجمعین )
یہ رشتۂ اخوت تقریباً نوے(90) افراد کے درمیان قائم ہوا، پینتالیس(45) مہاجر اور پینتالیس(45) انصار کے درمیان، اور اس اخوت کی بنیاد پر مہاجر اپنے انصاری بھائی کا اس کے رشتہ داروں کے بجائے وارث بننے لگا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ)) [النسائ: 33] … ’’ ہم نے ہر شخص کے ورثا بنائے ہیں۔ ‘‘ اس کے بعد مہاجرین وانصار کے درمیان وراثت منسوخ ہوگئی اور نصرت وخیرخواہی اور ایک دوسرے کو کھانا کھلانا باقی رہ گیا۔
ابن ابی حاتم نے سندِ حسن کے ساتھ زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم مہاجرین وانصار کے بارے میں خاص طور پر فرمایا: {وَاُوْلُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ} [الأنفال: 75] … ’’ اوررشتہ دار لوگ ایک دوسرے کے زیادہ حقدار ہیں۔ ‘‘ ، اور یہ اس لیے کہ ہم قریشی مسلمان جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو ہمارے پاس کوئی مال نہ تھا، ہم نے مدینہ میں اپنے انصاری بھائیوں کو پایا ان کے ساتھ ہمارا بھائی چارہ قائم ہوا اور ہم ان کے وارث بننے لگے… اور میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا بھائی بنا، تو ان کے پاس آکر رہنے لگا، میں نے ان کے پاس بہت سارے ہتھیار دیکھے، اللہ کی قسم! اگر وہ اس دن مرجاتے تو میرے سوا ان کا کوئی وارث نہ ہوتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو ہم اپنے قدیم طریقۂ میراث کی طرف لوٹ گئے۔ [2]
انصار ومہاجرین کے درمیان اس بھائی چارہ سے متعلق احادیث وآثار کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کریمہ کے نزول کے بعد بھی صحابہ کرام کے درمیان باہمی ہمدردی، اخلاص اور تعاون کی بنیاد پر بھائی چارہ قائم کرتے رہے، تاکہ مہاجرین کو پیش آنے والی مشکلات کا فوری حل ڈھونڈا جاسکے۔
یہ بات ہر مسلمان کے ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے کہ مومنوں کے درمیان رشتۂ اخوت ومحبت قیامت تک باقی رہے گا، اس لیے ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپس میں ہمدردی، تعاونِ باہمی اورخلوص ومحبت کی بنیاد پر ایک دوسرے
|