غزوہ تبوک
’’ تبوک ‘‘ شمالی حجاز میں وادیٔ قُریٰ اور شام کے درمیان ایک علاقہ کا نام ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ’’تبوک‘‘ سعد بن عذرہ کے بیٹوں کے ایک کنویں کا نام ہے۔ اِن دنوں مدینہ منورہ سے اس کی دوری تقریباً 778 کلومیٹر ہے۔ ماضی میں یہ علاقہ قبیلۂ قُضاعہ کا مسکن تھا، اور شاہِ روم کے تابع تھا۔ یہ غزوہ سن 9 ہجری ماہِ رجب میں حجۃ الوداع سے پہلے اور غزوئہ طائف کے چھ ماہ بعد واقع ہوا۔
غزوۂ تبوک کے اَسباب
فتحِ مکہ سے قبل جو واقعات رونما ہوئے اُن کا تاریخی جائزہ لینے نیز دعوتِ اسلام کی عالمیت پر نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس غزوہ کے دو اہم اسباب تھے:
پہلا سبب:
دعوتِ اسلامی کی عالم گیریت اور مسیحی قوموں تک اس کے ابلاغ کا وجوب تھا، اس لیے کہ اب عرب قوموں اور قبیلوں نیز مدینہ اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے یہودیوں تک اسلام کی دعوت تقریباً پہنچ چکی تھی، اور اس سلسلہ کی تمام جنگوں اور غزوات کی تفصیلات گزر چکی ہیں۔
اس لیے جہادِ اسلامی کی فرضیت اور دعوتِ اسلامیہ کی عالمی تبلیغ کا تقاضا تھا کہ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوتی کوششوں کا رُخ ان رومیوں کی طرف کرتے جو بلادِ عربیہ کے پڑوسی تھے اور اس دعوتِ حقّہ سے مستفید ہونے کے زیادہ حقدار تھے۔ مسیحیت ایک مُردہ جسم ہو کر رہ گئی تھی، اور مختلف فرقوں میں تقسیم ہو گئی تھی، اُن کا عقیدئہ توحید مسخ ہو چکا تھا، اُن میں اور مشرکوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا، اور ظلم وفساد اور استبداد وانارکی اُن کی زندگی کے ہر گوشہ میں سرایت کر چکی تھی۔
دوسرا سبب:
میں نے گزشتہ صفحات میں بیان کیا ہے کہ شرحبیل بن عمرو غسّانی جو رومیوں کا آلۂ کار تھا، اُس نے حارث بن عمیر اَزدی رضی اللہ عنہ کو قتل کر دیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامۂ مبارک لے کر بُصریٰ کے حاکم کے پاس جا رہے تھے۔ اور اس حادثہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک فوجی دستہ مؤتہ بھیجا تھا جو رومیوں کی بڑی طاقت سے ٹکرا گیا تھا، اوریہ دستہ اگرچہ کبرو غرور کے پیکر رومیوں سے انتقام نہ لے سکا، لیکن اِس معرکۂ مؤتہ کا عربوں کی نفسیات پر بہت گہرا اثر پڑا، اور بہت سے عرب قبائل نے سنجیدگی کے ساتھ سوچنا شروع کر دیا کہ وہ کسی طرح رومیوں کی بالا دستی سے نجات حاصل کر لیں اور مسلمانوں سے اپنا تعلق جوڑ لیں۔
|