کی قوم ان کی زبان سے تہلیل وتکبیر اور اللہ کی حمد وثنا کے کلمات سنتی رہی، یہاں تک کہ ان کی وفات ہوگئی، ان لوگوں کو اس بارے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں تھا کہ اُن کی وفات حالتِ اسلام میں ہوئی تھی۔ [1]
چھ اہلِ مدینہ کی اسلا م پر بیعت:
11نبوی کے موسم حج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم حسبِ عادت قبائلِ عرب سے ملنے کے لیے نکلے، تو عقبہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات قبیلۂ خزرج کے چھ اشخاص سے ہوئی۔ اللہ کے علم کے مطابق اب اعلانِ اسلام اور نبیٔ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کا وقت بالکل قریب ہوچکا تھا، ان حضرات کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
بنو نجار کے ابو امامہ اَ سعد بن زرارہ ، عوف بن حارث بن عفرائ، بنو زریق کے رافع بن مالک بن عجلان، بنو سلمہ کے قُطبہ بن عامر بن حدیدہ،بنو حرام بن کعب کے عقبہ بن عامر بن نابی، اور عبید بن عدی ابن سلمہ کے جابر بن عبداللہ بن رئاب۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس گئے اور فرمایا: آپ لوگ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا: ہم قبیلۂ خزرج کے ہیں، آپؐ نے فرمایا: کیا وہی جو یہودیوں کے ساتھ معاہدہ رکھتے ہیں ، انہوں نے کہا: ہاں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ بیٹھنا چاہوگے تاکہ میں تم سے بات کروں ، انہوں نے کہا: ہاں،پھر وہ سب آپؐ کے ساتھ بیٹھ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بتایا کہ اللہ نے آپ کو اپنی نبوت کے لیے چُن لیا ہے ،اور انہیں اللہ کی طرف بلایا ، اور ان کے سامنے اسلام کی تشریح کی اور قرآن کی تلاوت کی ۔
یہ لوگ یہودیوں سے سُنا کرتے تھے کہ ایک نبی کی بعثت کا زمانہ قریب آچکا ہے ، اور یہ کہ وہ بنی غالب کا ایک فرد ہوگا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ختم ہوئی تو انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: اے قوم کے لوگو! جان لو کہ یہی وہ نبی ہیں جن کا نام لے کر یہود تمہیں دھمکی دیتے ہیں، دیکھو، ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ تم سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں ، چنانچہ وہ سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے ، اور ان کی تصدیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام سے متعلق جو باتیں ان کے سامنے پیش کی تھیں انہیں قبول کرلیا، اور ان کی اتباع کا وعدہ کیا ، اور کہنے لگے کہ ہم اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ کر آئے ہیں کہ ان سے زیادہ دنیا کی کسی قوم کے درمیان دشمنی اور بغض وحسد کی آگ نہ بھڑکی ہوگی، اور امید ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ آپ کے ذریعہ متحد کردے گا۔ ہم مدینہ پہنچتے ہی ان کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو رکھیں گے، اور انہیں اسے قبول کرنے کی رغبت دلائیں گے، اگراللہ نے ان سب کو آپ کی دعوت پر اکٹھا کردیا تو آپ سے زیادہ کوئی معزز آدمی نہیں ہوگا، اور آئندہ سال موسم حج میں آپ سے ملنے کا وعدہ کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر راضی ہوگئے ۔ پھر وہ لوگ اپنے وطن چلے گئے اوراپنی قوم کو خفیہ طور پر اسلام کی دعوت دینے لگے، انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتایا اور اُن کے سامنے اس دعوت کی تشریح کی جس کے ساتھ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کیا تھا، اور انہیں قرآن بھی سُنایا، یہاں تک کہ انصار کے گھروں میں سے کوئی گھر ایسا باقی نہ رہا جس کے کچھ لوگوں نے اسلام قبول نہ کیا ہو، اس طرح اسلام بڑی تیزی کے ساتھ ان میں پھیلنے لگا، اور ہرگھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکرِ خیر ہونے لگا۔ [2]
|