وناقابلِ استدلال ہو سکتی ہے تو جواب اس کا یہ ہے کہ جب آپ خود علامہ علاؤالدین حنفی کی زبانی وضین بن عطا اور قاسم کی حالت معلوم کر چکے ہیں تو پھر باوجود اس کے کہ یہ دونوں راوی اس حدیث کی سند میں موجود ہیں اور امام طحاوی نے نہ ان کا کوئی متابع بیان نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کوئی اور طریق ذکر کیا ہے تو یہ حدیث کیونکر حسن الاسناد ہو سکتی ہے اور امام طحاوی کا یہ قول ھذا حدیث حسن الاسناد الخ کیونکر قابلِ قبول ہو سکتا ہے؟ اور وہاں یہیں سے علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کی فی الجملہ تصدیق ہو سکتی ہے ۔ جس کو انھوں نے امام طحاوی کے متعلق منہاج السنہ میں لکھا ہے کہ لیست عادتہ فقد الحدیث کنقد اھل العلم ولھزا روی فی شرح معانی الاثار الاحادیث المختلفۃ وانما یرجح ما یرحجہ منھا فی الغالب من جھۃ القیاس الذی راہ حجۃ ویکون اکثرہ مجروحا من جھۃ الاسناد ولا یثبت فانہ لم یکن لہ معرفۃ بالاسناد کمعرفۃ اھل العلم بہ و ان کان کثیر الحدیث فقیھا عالما انتھٰی یعنی جیسے علماء حدیث حدیث کی تنقید کرتے ہیں امام طحاوی کی ویسی تنقید کرنے کی عادت نہیں ہے اس لیے وہ شرح معانی الآثار میں مختلف حدیثوں کو روایت کر کے جو بعض حدیثوں کو بعض پر ترجیح دیتے ہیں تو اکثر قیاس سے ترجیح دیتے ہیں اور اس کو حجت سمجھتے ہیں۔حالانکہ اکثر ان میں سند کے اعتبار سے ضعیف ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امام طحاوی اگر چہ کثیر الحدیث فقیہ اور عالم ہیں لیکن اور علمائِ حدیث کی طرح ان کو فن اسناد کا علم نہیں تھا۔ واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ اتم۔ سوال نمبر5: جب طحاوی کی حدیث مذکور کی یہ حالت ہے اور ابو عائشہ کی حدیث مذکور کا مرفوع ہونا صحیح نہیں ہے،بلکہ صحیح یہ ہے کہ وہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور قول بھی ایسا کہ اس میں رائے وقیاس کو دخل ہے تو پھر چھ تکبیریں کہنے کا ثبوت کیا ہے؟ |
Book Name | مقالات محدث مبارکپوری |
Writer | الشیخ عبدالرحمٰن مبارکپوری |
Publisher | ادارہ علوم اثریہ |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 277 |
Introduction | مولانا محمد عبدالرحمٰن مبارکپوری شیخ الکل فی الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی کے چند مامور شاگردوں میں سے ایک ہیں ۔آپ اپنے وقت کےبہت بڑے محدث،مفسر، محقق، مدرس ، مفتی،ادیب اور نقاد تھے ۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں علم کی غیر معمولی بصیرت وبصارت،نظر وفکرکی گہرائی ،تحقیق وتنقیح میں باریک بینی اور ژرف نگاہی عطاء فرمائی تھی ۔زہد وتقوی ،اخلاص وللّٰہیت،حسن عمل اور حسن اخلاق کے پیکر تھے۔یہ ایک حقیقت ہےکہ’’برصغیر پاک وہند میں علم حدیث‘‘ کی تاریخ تب تلک مکمل نہیں ہوتی جب تک اس میں مولانا عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری کی خدمات اور ان کا تذکرہ نہ ہو۔جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی ان ہی کی تصنیف ہے۔ زیر تبصرہ کتاب’’مقالات محدث مبارکپوری ‘‘ مولانا محمد عبد الرحمٰن مبارکپوری کی نایاب تصانیف کا مجموعہ ہے ۔اس میں مولانامبارکپوری مرحوم کی آٹھ تصانیف کے علاوہ ان نادر مکتوبات اور شیخ الھلالی کا وہ قصیدہ جو انہوں نے حضرت مبارکپوری کےمحامد ومناقب میں لکھا شامل اشاعت ہے۔ |