دوسرے سال موسمِ حج میں انصار کے بارہ آدمی مکہ آئے ، ان میں سے پانچ (جابر رضی اللہ عنہ کے سوا )تو وہی تھے جن کا ذکر آچکا ، اور ان کے علاوہ مندرجہ ذیل لوگ تھے:
معاذ بن عفراء، ذکوان بن عبد قیس، عبادہ بن صامت، یزید بن ثعلبہ، عباس بن عبادہ۔ یہ دسوں قبیلۂ خزرج کے تھے، اور قبیلۂ اوس کے دو تھے،عویم بن ساعدہ اور ابو الہیثم مالک بن تیہان۔
یہ بارہ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقبہ میں جمع ہوئے، اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں ان لوگوں کے ساتھ تھا جو عقبہ کے پاس پہلی بیعت میں موجودتھے ، اور ہم بارہ آدمی تھے، اور ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعۃ النساء جیسی بیعت کی(یعنی ان عورتوں کی بیعت جیسی جس کا حکم فتح مکہ کے وقت نازل ہوا تھا) کہ ہم اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، بہتان تراشی نہیں کریں گے، اور کسی نیکی کے کام میں اللہ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر تم نے یہ عہد پورا کیا تو تمہیں جنت ملے گی اور اگر تم نے ان گناہوں میں سے کسی کا ارتکاب کیا تو تمہارا معاملہ اللہ کے حوالے ہوگا، چاہے گا تو تمہیں عذاب دے گا، اور چاہے گا تو تمہیں معاف کردے گا۔ [1]
سیّدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ مدینہ میں بحیثیت داعی ومعلم :
جب وہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوٹ کر مدینہ جانے لگے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبدمناف رضی اللہ عنہ کو بھیجا، اور انہیں حکم دیا کہ وہ انہیں قرآن پڑھنا سکھائیں اور اسلام کی تعلیم دیں ۔ مصعب رضی اللہ عنہ مدینہ میں اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہنے لگے اور مقرئ کے نام مشہور ہوگئے، اور نماز میں ان کی امامت کرنے لگے، اس لیے کہ اوس وخزرج نے اسے پسند نہیں کیا کہ ان میں سے کوئی ان کی امامت کرے۔
ایک دن اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ انہیں لے کر بنی عبدالأشہل کے علاقہ میں گئے اور بنی ظفر کے ایک باغ میں داخل ہوئے ، وہاں سعد بن معاذ کو ان کے آنے کی خبر ہوئی ، اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ان کے خالہ زاد بھائی تھے ۔ سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا: تم اسعد بن زرارہ کے پاس جاؤ، اسے ڈانٹ پلاؤ اور کہو کہ کوئی بھی ایسا کام نہ کرے جسے ہم پسند نہیں کرتے ، مجھے خبر ملی ہے کہ وہی اس اجنبی آدمی کو اپنے ساتھ لایا ہے جو ہمارے نادانوں اور کمزوروں کو بے وقوف بنارہا ہے ، اگر میرے اور اس کے درمیان قرابت نہ ہوتی تو تمہارے بجائے میں خود ہی اس سے نمٹ لیتا۔
اُسید بن حضیر نے اپنا نیزہ لیا اور چل کر اُن دونوں کے پاس آئے، جب اَسعد بن زُرارہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا تو مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سے کہا: یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پاس آرہا ہے، تم اسے اسلام میں داخل ہونے کے لیے پوری محنت کرو۔ مصعب رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر وہ بیٹھ جائے گا تو میں اس سے بات کروں گا۔ اُسید ان دونوں کے سامنے کھڑے ہوکر بُرا بھلا کہنے لگے، نیزکہا : اے اسعد! تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اس اجنبی آدمی کو ہمارے پاس لائے ہو جو ہمارے نادانوں اور کمزوروں کو بے وقوف بناتا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم بیٹھ کر بات سُننا پسند کروگے، اگر تمہیں ہماری بات اچھی لگے تو اسے قبول کرلینا اور اگر بُری لگے تو پھر ہمیں
|