Maktaba Wahhabi

479 - 704
آئے، مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد وہ آدمی مسلمان ہوگیا، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا اور باقی مال واسباب کے پانچ حصے کرکے ایک حصہ اپنے پاس رکھا اور باقی کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کردیا۔ [1] سریّہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (جمجوم) : بنی سلیم کا ’’جمجوم‘‘ نامی ایک کنواں مدینہ سے چار میل کی دوری پر مرالظہران کے مقام پر پایا جاتا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو چند مسلمانوں کے ساتھ بنی سلیم کے پاس بھیجا، یہ واقعہ ماہِ ربیع الثانی سن 6 ہجری کا ہے، اس لیے کہ یہ لوگ غزوۂ خندق میں دشمنانِ اسلام کے ساتھ تھے، اور اُس علاقے میں مسلمانوں کی نقل وحرکت پر نظر رکھتے تھے، اور انہیں پریشان کرتے تھے، جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ان کے علاقے میں پہنچے تو وہ فوراً منتشر ہوگئے۔ صحابہ کو وہاں قبیلۂ مزینہ کی حلیمہ نامی ایک عورت ملی، جس نے انہیں بنی سلیم کے مکانات کا پتہ دیا، انہوں نے ان پر حملہ کردیا، اور بہت سے اموالِ غنیمت، اور اونٹ اور بکریوں پر قبضہ کرلیا، اور ان کے کچھ لوگوں کو قید کرلیا، انہی قیدیوں میں اس عورت کا شوہر بھی تھا، جب صحابہ مدینہ منورہ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت اور اس کے شوہر کو آزاد کردیا۔ [2] سریّہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ (العِیص) : ماہِ جمادی الاولیٰ سن 6 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر ملی کہ قریشیوں کا ایک تجارتی قافلہ شام سے مکہ واپس جارہا ہے، مسلمانوں کے لیے ایک بہت ہی اچھا موقع تھا کہ وہ اس قافلے کے مال واسباب پر قبضہ کرلیں، اور مشرکوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے خوف ودہشت بٹھادیں، اس تجارتی قافلہ کے پاس صفوان بن امیہ کا بہت سارا مال چاندی کی شکل میں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قافلہ کا پیچھا کرنے کے لیے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں ایک سو ستر (170) گھوڑ سواروں کو روانہ کیا، زید رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی تیز چل کر مقام عیص پر پہنچ گئے، جو سمندر کے قریب مدینہ سے چار میل کی دوری پر واقع تھا۔ مجاہدین نے قافلہ کے پاس موجود مال اور چاندی پر قبضہ کریا، اور اکثر لوگوں کو گرفتار کرلیا، انہی میں سیّدہ زینب بنت الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شوہر ابوالعاص بن الربیع بھی تھے۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ جب مدینہ پہنچے تو ابو العاص نے اپنی بیوی زینب رضی اللہ عنہ سے پناہ مانگی، انہوں نے ان کو پناہ دے دی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ آپ اس قافلہ کے تمام مال واسباب واپس کردیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کواس کا مشورہ دیا اور ان میں سے کسی کو اس پر مجبور نہیں کیا، چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنھم نے اس قافلہ کا سب کچھ واپس کردیا۔ ابو العاص مکہ گئے اور ہر مال والے کو اس کامال واپس کردیا، پھر پوچھا، کیا تم میں سے کسی کا کچھ مال میرے پاس باقی رہ گیا ہے ؟ انہوں نے کہا: نہیں، تو ابو العاص نے کہا: کیا میں نے اپنی ذمہ داری پوری کردی؟ لوگوں نے کہا: ہاں، آپ کو اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دے، ہم نے آپ کو ہمیشہ ہی وفادار اور کریم النفس پایا ہے۔ تب ابوالعاص نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندہ اور رسو ل ہیں،
Flag Counter