Maktaba Wahhabi

254 - 704
دوسری بیعت ِ عقبہ 13 نبوی میں جب حج کا وقت آیا تو وہ مسلمان جو مدینہ میں اسلام لاچکے تھے، انہوں نے اس سال حج کے لیے جانے اور وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کاارادہ کیا، اور آپس میں بات کی کہ ہم کب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح چھوڑ دیں گے کہ انہیں مکہ کے پہاڑوں میں بھگایا جائے اور انہیں ڈرایا جائے، چنانچہ وہ لوگ تقریباً ستر (70) مرد یا اس سے ایک یا دو زیادہ اور دو عورتیں (نسیبہ بنت کعب امّ عمارہ رضی اللہ عنھا اور اسماء بنت عمرو امّ منیع رضی اللہ عنھا ) اپنی قوم کے مشرک حجاج کے ساتھ- جن کی تعداد پانچ سو تھی- مکہ آئے ، اور براء بن معرور رضی اللہ عنہ جو قوم کے سردار تھے اور کعب بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ لگانے کے لیے نکلے، یہاں تک کہ مسجدِ حرام میں داخل ہوگئے، وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور عباس رضی اللہ عنہ مسجد کے ایک گوشہ میں بیٹھے تھے، دونوں نے انہیں سلام کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بات کرنے لگے۔پھر اس وعدہ کے ساتھ نکل کر حج کے لیے چلے گئے کہ ایام تشریق کے دوسرے دن عقبہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملیں گے، جب وہ رات آئی تو انصار کے ساتھ جابر رضی اللہ عنہ کے والد عبداللہ بن عمرو بن حرام رضی اللہ عنہ بھی گئے ، جو سردارانِ مدینہ میں سے تھے، لوگوں نے ان سے کہا: اے ابو جابر! آپ ہمارے سرداروں اور معزز لوگوں میں سے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ آپ کل قیامت کے دن جہنم کا ایندھن بنیں ، یہ کہہ کر انہیں اسلام کی طرف بلایا اور ان کو عقبہ کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ملنے کے وعدے کی خبر دی۔ وہ فوراً اسلام لے آئے اور ان کے ساتھ عقبہ کے اجتماع میں شریک ہوئے ۔یہ ابو جابر ان بارہ نقیبوں میں سے منتخب ہوئے جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت کے وقت موجود انصار میں سے چُنا تھا۔ شبِ موعود کی جب ایک تہائی گزر گئی تو ایک ایک ، دو دو اور تین تین کرکے سب لوگ عقبہ کے پاس گھاٹی میں جمع ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ساتھ آئے، ان دنوں وہ اپنی قوم کے دین پر تھے۔ انہوں نے خود چاہا کہ وہ اپنے بھتیجے کے ساتھ اس خفیہ اجتماع میں شریک ہوںاور ان کی جانب سے حالات کے بارے میں اطمینان کریں۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ان دونوں کے ساتھ ابو بکر اور علی رضی اللہ عنھما بھی تھے۔ سیّدنا عباس رضی اللہ عنہ نے علی رضی اللہ عنہ کو گھاٹی کے دہانے پر اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو دوسرے راستے کی ابتدا میں بطور جاسوس کھڑاکردیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے تو سب سے پہلے عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے بات کی ، اور کہا: اے خزرج والو ! (اس وقت تمام خزرجی اور اوسی انصار کو خزرج ہی کہا جاتا تھا) محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا ہمارے دلوں میں جو مقام ہے وہ تم سب جانتے ہو، ہم نے اپنی قوم کی طرف سے ان کی حفاظت کی ہے ، جو ہمارے ہی دین پر ہیں، اس لیے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے شہر اور اپنی قوم کے درمیان باعزت رہ رہے ہیں ، لیکن انہو ں نے خود تمہارے پاس جانا چاہا ہے ، اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ ان سے اپنا وعدہ نبھاؤگے اور ان کے مخالفین سے ان کا دفاع کروگے تو پھر ٹھیک ہے ، اور اگر مدینہ جانے کے بعد ان کو اکیلا چھوڑ دو گے اور انہیں ان کے دشمنوں کے حوالہ کردوگے تو ابھی
Flag Counter