کو عزت بخشی۔ اب جزیرہ عرب میں کوئی ایسا نہ رہا جو شرک کا دفاع کرتا سوائے بعض گروہوں کے جن کا طیش وغضب انہیں اسلامی فوج یا داعیانِ اسلام کے سامنے ہتھیار اٹھانے پر اُبھارتا تھا۔ لیکن جوںہی حق کی قوت اُن کے سامنے آتی تھی وہ اپنی تلواریں میانوں میں ڈال کر بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرح اسلام بڑی تیزی سے طائف اور اس کے قریبی علاقوں میں پھیلنے لگا، اور اُن علاقوں میں رہنے والے قبائل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس برضا ورغبت آکر اللہ اور اس کے رسول کے لیے اپنی اطاعت وفرمانبرداری کا اعلان کرنے لگے۔
کعب بن زہیر[1] حضورِ نبوی میں:
بیہقی کی روایت ہے کہ زہیر بن ابی سُلمیٰ (مشہورِ زمانہ شاعر) کے دونوں بیٹے کعب وبُجیر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طائف سے واپسی کے بعد) جب مقامِ اَبرق العرّاف پر پہنچے تو بُجیر نے کعب سے کہا: تم یہاں رُکے رہو، اور میں اِس آدمی (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس جاتا ہوں اور سنتا ہوں کہ وہ کیا کہتا ہے۔ بُجیر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپؐ نے اسے اسلام کی دعوت دی، وہ فوراً مسلمان ہوگیا۔ کعب کو جب یہ خبر ملی تو اس نے چند اشعار کہے جن میں اُس نے بُجیر کی کم عقلی کا رونا رویا اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اُڑایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب وہ اشعار سنے تو اُس کے خون کو حلال کر دیا اور فرمایا: جسے کعب مل جائے وہ اسے قتل کر دے۔ بُجیر نے اپنے بھائی کعب کو خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کا خون حلال کر دیا ہے، اور اسے نصیحت کی کہ کسی طرح نجات پانے کی کوشش کرے۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تم بچ سکو گے۔ اس کے بعد دوسرا خط لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی شخص آکر اعلان کرتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور محمد اللہ کے رسول ہیں تو اس کی شہادت کو قبول کر لیتے ہیں، اور اس سے پہلے کی خطاؤں کو در گزر کردیتے ہیں۔ اس لیے جب تمہیں میرا یہ خط ملے تو فوراً مسلمان ہو جاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آجاؤ۔
چنانچہ کعب رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا، اور وہ قصیدہ کہا جس میں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کی، پھر مدینہ آئے، مسجد میں داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر بیٹھ گئے، اور اسلام کا اعلان کر کے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، اور آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: میں کعب بن زہیر ہوں۔
ابن اسحاق رحمہ اللہ نے لکھا ہے: کعب رضی اللہ عنہ نے پھر اپنا وہ قصیدہ سنایا جس کا پہلا شعر مندرجہ ذیل ہے:
بانت سعاد فقلبي الیوم متبول
مُتَیَمَّ إِثرَہا لم یُضْدَ مکبول
قسطلانی نے اپنی کتاب ’’المواہب‘‘ میں ابو بکر ابن الا ٔنباری کے حوالے سے کعب رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ میں نے جب
|