مندرجہ ذیل شعر پڑھا:
إن الرسول لنور یُستضاء بہ
مہنّد من سیوف اللّٰہ مسلول
’’ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا نور ہیں جس سے دنیا روشنی حاصل کرتی ہے، بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی تلواروں میں سے ایک ہِندی تلوار ہیں جو باطل کا سر قلم کرنے کے لیے ہر دم نیام سے باہر رہتی ہے۔‘‘
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادرِ مبارک میرے بدن پر ڈال دی، کعب رضی اللہ عنہ کو اس چادر کے لیے معاویہ رضی اللہ عنہ نے دس ہزار دینار کی پیش کش کی، تو انہوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادرِ مبار ک کسی آدمی کو کسی بھی قیمت میں نہیں دوں گا۔
کعب رضی اللہ عنہ کا جب انتقال ہوگیا تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے خاندان والوں کو بیس ہزار کی پیش کش کر کے وہ چادر حاصل کرلی۔ اور پھر وہ چادر سلاطینِ بنی امیّہ کے پاس یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہی۔ [1]
امراء وعُمّال کی تعیین:
سن 9 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصولی زکاۃ کے لیے امراء اور عُمّال کو مختلف علاقوں میں روانہ فرمایا۔ بُریدہ بن الحُصیب رضی اللہ عنہ کو قبائل اَسلم وغفار کے پاس، عبّاد بن بِشر اَشہلی رضی اللہ عنہ کو قبائل سُلَیم اور مُزینہ کے پاس، رافع بن مَکیث رضی اللہ عنہ کو جُھینہ کے پاس، عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو فُزارہ کے پاس، ضحّاک بن سُفیان رضی اللہ عنہ کو کُلاّب کے پاس، بُسر بن سفیان کعبی رضی اللہ عنہ کو بنو کعب کے پاس، اور ابن اللُّتَبیہ اَزدی رضی اللہ عنہ کو ذُبیان کے پاس بھیجا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن تمام عُمّال کو حکم دیا کہ وہ زکاۃ لوگوں کے عام اَموال میں سے لیں، اُن کے سب سے اچھے اَموال لینے سے بچیں۔ابن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجربن ابی امیّہ رضی اللہ عنہ کو صنعاء بھیجا، وہ وہیں تھے کہ عنسی ظاہر ہوا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیاد بن لبید رضی اللہ عنہ کو حضر موت، عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کو طئ اور بنو اَسدکی طرف اور مالک بن نویرہ کو بنو حنظلہ کے پاس بھیجا۔ اور بنو سعد کے صدقات کا معاملہ دو شخصوں کے سپرد کیا، ایک علاقہ میں زبرقان بن بدر کو، اور دوسرے علاقہ میں قیس بن عاصم کو بھیجا۔ اور علاء بن الحضرمی رضی اللہ عنہ کو بحرین، اور علی رضی اللہ عنہ کو نجران کے علاقہ میں بھیجا، تاکہ یہ سب اُن علاقوں کے صدقات، اور جو اسلام نہ لائیں اُن کا جزیہ وصول کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئیں۔ [2]
جمع زکاۃ کے سلسلہ میں ابن اللُّتبیہ کا ایک واقعہ ہے جس میں دلیل ہے کہ عُمال کا محاسبہ کیا جائے گا، اور کسی کی خیانت ظاہر ہونے کی صورت میں اُسے برطرف کر دیا جائے گا، اور اُس کی جگہ کسی امانت دار کو بھیجا جائے گا۔
واقعہ یوں ہے کہ یہ شخص جب صدقہ کا مال لے کر مدینہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ مال آپ لوگوں کے لیے ہے، اور یہ مجھے ہدیہ ملا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے، اللہ کی حمد وثنا بیان کی اور فرمایا: کیا بات ہے کہ میں کسی کو عامل بنا
|