ہے۔ تب اس نے کہا: محمد مکہ میں مجھ سے کہا کرتا تھا، میں تمہیں قتل کردوں گا، اس لیے اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھ پر تھوک بھی دیتا تو مجھے قتل کردیتا، چنانچہ اللہ کا دشمن مکہ سے چھ میل پہلے مقام سرف میں ہی مرگیا، جب کفارِ قریش اسے لے کر مکہ واپس جارہے تھے ۔ [1]
علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی لے کر آئے، تاکہ آپ اسے پییں، لیکن وہ پینے کے لائق نہیں تھا، اس لیے آپ نے اسے واپس کردیا، اور علی رضی اللہ عنہ نے آپ کے چہرہ سے خون کو دھویا اور آپ کے سر پر پانی بہایا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں موجود ایک چٹان پر چڑھنا چاہا تو تکلیف اور تھکن کی وجہ سے ایسا نہ کرسکے، یہ دیکھ کر طلحہ رضی اللہ عنہ آپ کے قدموں کے نیچے بیٹھ گئے، اور آپ ان کی پشت پر پاؤں رکھ کر چٹان پر چڑھ گئے، اس وقت نماز کا وقت ہوگیا تھا، تو آپ نے بیٹھ کر ان صحابہ کرام کو نماز پڑھائی۔
فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کیا:
صحیح روایات سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جبریل اور میکائیل علیہما السلام کو بھیجا، تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دفاع کرنے کے لیے وہ دونوں جنگ کریں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی تھی، جیسا کہ بخاری اور مسلم میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کے دن دیکھا کہ دو آدمی آپ کی طرف سے دفاع میں زبردست جنگ کررہے تھے، اور وہ سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے، اُن دونوں کو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور نہ بعد میں کبھی دیکھا۔ [2]
مجاہدین پر اونگھ طاری ہوگئی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں پر جو بھاری مصیبت آگئی تھی، اس کے سبب مجاہدین بہت ہی زیادہ غم زدہ تھے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کے اوپر کچھ دیر کے لیے اونگھ طاری کردی، اور جب ان کی آنکھیں کھلیں تو ان کے دلوں سے خوف رخصت ہوچکا تھا اور انہیں نہایت سکون واطمینان حاصل ہوچکا تھا۔
ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں اُن لوگوں میں سے تھا، جن پر احد کے دن اونگھ طاری ہوئی تھی، یہاں تک کہ میری تلوار کئی بار میرے ہاتھ سے گرتی رہی اور میں اسے اٹھاتا رہا۔ [3] اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
((ثُمَّ أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُّعَاسًا يَغْشَىٰ طَائِفَةً مِّنكُمْ ۖ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّـهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ ۖ يَقُولُونَ هَل لَّنَا مِنَ الْأَمْرِ مِن شَيْءٍ ۗ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّـهِ ۗ)) [آلِ عمران: 154]
’’ پھر اللہ نے غم کے بعد تمہارے اوپر سکون نازل کیا، جو نیند تھی، جو تم میں سے ایک جماعت پر غالب آرہی تھی، اور ایک دوسری جماعت تھی، جس کو صرف اپنی فکر لگی ہوئی تھی، جو اللہ کے بارے میں ناحق دورِ جاہلیت کی
|