Maktaba Wahhabi

201 - 704
زعمائے قریش کو قتل وہلاکت کی دھمکی: ابتدائے عہد اسلام میں مشرکینِ مکہ کا بالعموم اور ان کے زعماء ورؤساء کا بالخصوص یہ مشغلہ بن گیا تھا کہ وہ ہر وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایذاء رسانی، آپؐ کا مذاق اڑانے، آپؐ کے بارے میں طنز وتعریض، آپؐ کے خلاف سازشیں کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بدکلامی میں لگے رہتے تھے، اور جب کبھی اپنی مجلسوں میں اور خانۂ کعبہ کے گرد جمع ہوتے تو یہی باتیں سوچتے اور آپس میں آپؐ ہی کے خلاف مشورے کرتے۔ ان تمام مشرکین کے اعصاب پر یہی بیمار اور متعفن فکر سوار رہتی تھی، اور ان کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عجیب آزمائش میں پڑے رہتے تھے ، جب بھی کہیں جاتے تو یہ مشرکین ان کے پیچھے لگے رہتے ، اور جب خانۂ کعبہ کے پاس آکر نماز پڑھتے تو آپؐ کی طرف دیکھ دیکھ کر آپس میں آپؐ کے خلاف سرگوشیاں کرتے، اور جب بیت اللہ کا طواف کرنے لگتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آکر آپؐ پر جملے چست کرتے ، یہ مجرمین ایک لمحہ کے لیے بھی آپؐ کو اپنے گھر کے باہر آرام نہ کرنے دیتے، انہوں نے سرزمینِ مکہ کو آپؐ پر تنگ کردیا تھا، جس کے سبب آپؐ اندر ہی اندر بیزار اور گھٹتے رہتے۔ انہی دنوں ایک بار زعمائے قریش خانۂ کعبہ کے حِجر والے حصے میں جمع ہوکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہہ رہے تھے کہ ہم نے اس آدمی کی طرف سے صبر کرنے کی انتہاء کردی، اس نے ہم سب کو بے وقوف کہا، ہمارے آباء واجداد کو گالی دی، ہمارے دین کی عیب جوئی کی ، ہمارے درمیان تفریق پیدا کردی، اور ہمارے معبودوں کو بُرا بھلا کہا، اور اب ہم اس کی جانب سے صبر کی انتہاء کو پہنچ چکے ہیں ۔ یہ لوگ اپنی انہی باتوں میں لگے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور حجر اسود کا استلام کرکے طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے اپنی خبیث عادت کے مطابق آپؐ کی طرف اشارہ کرکے ایذاء رسانی کی کوئی بات کہی جس کے سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک متأثر ہوا، آپ آگے بڑھ گئے اور جب دوبارہ ان کے پاس سے گزرے تو پھر پہلی بار کی طرح آپؐ پر کوئی طنزیہ جملہ چست کیا، جس کا اثرآپؐ کے چہرہ پر ظاہر ہوا، آپ پھر آگے بڑھ گئے، اور تیسری بار ان کے پاس سے گزرے اور انہوں نے پہلے کی طرح آپؐ پر کوئی جملہ چست کیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اہل قریش! سن لو، اُس اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میں تمہارے قتل کا سامان لے کر آیا ہوں ۔‘ ‘ اس بات سے تمام مشرکین خوفزدہ ہوگئے اور ایسا لگا کہ جیسے ان کے سر پر کوئی چڑیا بیٹھی ہوئی ہو، یہاں تک کہ ان میں سب سے زیادہ آپ سے دشمنی اور آپ کی ایذاء رسانی کرنے والا آپ کو خاموش کرانے لگااور آپ کی ناراضی کو دور کرنے لگا ، اس نے کہا: اے ابو القاسم! آپؐ اپنی معروف سنجیدگی کے ساتھ گھر لوٹ جائیے، اللہ کی قسم! آپ تو کبھی بھی نادان نہیں تھے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر لوٹ گئے۔ دوسرے دن مشرکین پھر حِجرمیں جمع ہوئے ۔ راویٔ حدیث عمرو بن عاص کہتے ہیں کہ میں بھی ان کے ساتھ تھا ، وہ آپس میں ایک دوسرے سے کہنے لگے : کل محمدؐ نے تم سے کچھ کہا، اور تم نے اس سے کچھ کہا، یہاں تک کہ جب اس نے تم سے تکلیف دہ بات کہی تو اسے تم لوگوں نے چھوڑ دیا ، وہ لوگ اسی قسم کی بات کررہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سامنے آگئے، تمام مل
Flag Counter