Maktaba Wahhabi

721 - 704
قبول کی جائے گی۔ [1] 14 ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اس کی جگہ لوٹا دی: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے یہ بھی ہے کہ ایک صحابی کی آنکھ نکل کر اُن کے رخسار پر لٹک گئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے صحیح سالم اُس کی جگہ لوٹا دیا، جبکہ عیسیٰ علیہ السلام نے ایک پیدائشی اندھے کو بینا بنا دیا جس کی آنکھ اپنی جگہ پر موجود تھی۔ اس واقعہ کو اَلعِزُّ بن عبدالسلام نے بدایۃ السول میں صفحہ /41پر ذکر کیا ہے۔ ابو یعلیٰ اور ابو نعیم نے روایت کی ہے کہ قتادہ رضی اللہ عنہ کی آنکھ اُحد کے دن زخمی ہوگئی اور نکل کر اُن کے رُخسار پر لٹک گئی۔ لوگوں نے اسے کاٹ کر الگ کر دینے کا مشورہ دیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر قتادہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر اُن کی آنکھ کو اپنی ہتھیلی کی مدد سے اُس کی جگہ پر لے جا کر اندر دبا دیا۔ قتادہ رضی اللہ عنہ کو پھر یاد بھی نہیں رہا کہ اُن کی کون سی آنکھ زخمی ہوئی تھی۔ اس حدیث کو سیوطی نے خصائص (1/541) میں اور ہیثمی نے مجمع الزوائد (8/297) میں ذکر کیا ہے۔ یہاں حدیث کے الفاظ ابویعلیٰ رحمہ اللہ کے ہیں، اور اس کی سند میں یحییٰ بن عبد الحمید حُمانی نام کا راوی ضعیف ہے۔ لیکن ابو نعیم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو دیگر دو سندوں سے روایت کی ہے، اس لیے اس حدیث کو اُن دونوں کے ذریعہ تقویت ملتی ہے۔ یہ بات شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھی ہے۔ اور العِزُّ عبدالسلام رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں دو طریقوں سے اظہارِ معجزئہ نبوی ہے: اوّل یہ ہے کہ آنکھ بہہ جانے کے بعد دُرست ہوگئی، دوّم یہ کہ بصارت ختم ہو جانے کے بعد دوبارہ عود کر آئی۔ [2] 15 ۔ واقعۂ معراج: ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ’’واقعۂ معراج‘‘ ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی نبی شریک نہیں۔ معراج سے متعلق اَحادیث اٹھائیس (28) سے زیادہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مروی ہیں۔ صحیحین کی حدیثیں اس سلسلہ میں زیادہ صحیح اور مفصل ہیں۔ عالمِ ملکوت کی طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مبارک سفر میں جو واقعات پیش آئے وہ یقینا اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ عالی اور فضیلت واہمیت کی قطعی دلیل ہیں۔ مثلاً ساتوں آسمانوں میں انبیائے کرام سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی، سدرۃ المنتہیٰ کے پاس اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت وجہنم کو دیکھا، اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم فرمائی، اور آسمانِ اوّل سے لے کر ساتویں آسمان تک فرشتوں اور انبیائے کرام نے نہایت گرمجوشی کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا۔ اِن واقعات کی روشنی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا بجا تھا کہ ’’قیامت کے دن آدم علیہ السلام اور اُن کے سوا تمام انبیاء میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ اور یہ بات میں بطور فخر نہیں کہہ رہا ہوں‘‘۔[3] 16 ۔ صدقہ کی چیز کا کھانا حرام ہونا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صدقہ کی چیز کا کھانا حرام تھا، چاہے صدقہ فرض ہو یا نفل۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: بے شک صدقہ
Flag Counter