دینِ اسلام کی روح ہے جس کا آفتابِ عالم تاب بعثتِ محمدی کے ساتھ طلوع ہوا، اس لیے کہ ظالم کے خلاف اُٹھ کھڑا ہونا، چاہے وہ جتنا بڑا آدمی ہو، اورمظلوم کی مدد، چاہے وہ جتنا معمولی انسان ہو،اور بھلائی کا حکم دینا ،اور بُرائی سے روکنا، اور اللہ کے حدود کی پابندی،یہی وہ دائمی اصول ومبادی ہیں جن کے سبب یہ دینِ اسلام ہر زمان ومکان کا دین ہے۔
بکریاں چرانااور تلاشِ معاش کے لیے تگ ودو:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یتیم پیدا ہوئے تھے اور والد سے آپ کو صرف پانچ اونٹ ، بکریوں کا ایک ریوڑ اور ایک حبشی لونڈی وراثت میں ملی تھی، جس کا نام برکہ اور کنیت امّ ایمن تھی، جن کا ذکرِ خیر آپ کی پرورش وپرداخت کرنے والی عورتوں کے ضمن میں ہوچکا ہے۔
پھر آپ حلیمہ کے پاس بنی سعد پہنچ گئے، اور ان کے ساتھ رہنے لگے، جب چلنے پھرنے لگے، اور بعض چھوٹے کا م کرنے لگے تو اپنے رضاعی بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے لگے۔ اور جب اپنی ماں کے پاس مکہ واپس آئے، اور کچھ بڑے ہوئے، تو حصولِ رزق کے لیے چند ٹکوں کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چرانے لگے ، تاکہ اپنے چچا ابو طالب کی مدد کرسکیں، جن کے ساتھ آپ رہائش پذیر تھے ،اور جو قلیل المال اور کثیر العیال آدمی تھے۔
بخاری ومسلم نے کتاب الاجارہ میں سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جب بھی کوئی نبی مبعوث کیا تو اس نے بکریاں چرائیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے پوچھا :اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ تو فرمایا: ہاں ، میں بھی چند سِکّوں کے عوض اہلِ مکہ کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ [1]
امام حاکم نے علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے ایک طویل حدیث روایت کی ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ نے دورِ جاہلیت کے کاموں سے مجھے بچایا۔ اس میں آپ نے یہ بھی فرمایا کہ ایک رات میں نے ایک لڑکے سے کہا؛ جومیرے ساتھ بکریاں چراتا تھا کہ اگر تم میری بکریوں کا خیال رکھو تومیں مکہ جاؤں، اوروہاں دیگر جوانوں کی طرح قصوں اور کہانیوں کی مجالس میں ان کے ساتھ شرکت کروں۔ [2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ انبیائے کرام علیھم السلام کا نبوت سے قبل بکریاں چرانا اس حکمت کا حامل ہے کہ اس طرح انہیں اپنی قوم کی قیادت اور دیکھ بھال کے لیے ٹریننگ حاصل ہوجائے، اورحِلم وبردباری اور شفقت کے عادی بن جائیں۔ اس لیے کہ بکریاں چرانے، ان کے بکھر جانے کے بعد انہیں جمع کرنے، انہیں ایک چراگاہ سے دوسری چراگاہ تک لے جانے، او ر دشمنوں سے ان کی حفاظت کا صبر آزما کام کرنے کے سبب ان کے مزاج ، ان کی کمزوری او ران کی دیکھ بھال کی ضرورت کووہ خوب جان جاتے تھے، اور اس طرح اپنی قوم کی ہدایت ورہنمائی کی راہ میں انہیں جو تکلیف اٹھانی پڑتی تھی، اس پر صبرکرتے تھے۔
|