اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ میں ہماری عدمِ شرکت کو نہیں بیان کیا ہے، بلکہ قسم کھانے والوں کے مقابلہ میں ہماری قبولیتِ توبہ کو مؤخّر کیے جانے کی بات کی ہے۔ [1]
غزوہ تبوک کے عظیم نتائج:
اگرچہ اس غزوہ میں جنگ نہیں ہوئی لیکن اس اعتبار سے اس کے نتائج بہت ہی زیادہ مثبت رہے کہ اس کے بعد مسلمانوں کی معنوی اور ذہنی سطح کافی بلند ہوگئی، دشمنوں کے دلوں میں اُن کا رعب بیٹھ گیا، چاہے وہ دشمن اہلِ روم ہوں یا کفار ومشرکینِ عرب جو اب تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، یا منافقین جو ہر وقت اسی تاک میں لگے رہتے تھے کہ کب اسلام اور مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئے گی۔
اس غزوہ کے بعد شام اور اس کے قرب وجوار میں رہنے والے نصرانیوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ اسلامی فوج اُنہیں اُن کے گھر میں داخل ہو کر مارنے کی قدرت رکھتی ہے۔
اللہ کا درود وسلام ہو ہر دم اور ہر لمحہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور مسلمانوں کی ایسی عظیم خیر خواہی کی، اس غزوہ کے بعد باقی ماندہ تمام عرب قبائل نے قبولِ اسلام میں جلدی کی اور شریعتِ اسلامیہ کی سیادت وبرتری کو تسلیم کر لیا، اور فوج در فوج مدینہ منورہ آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ اسی لیے اس سال کا نام ’’عام الوفود‘‘ یعنی وفود کی آمد کا سال رکھ دیا گیا۔ اِن وفود کی تفصیل آگے آئے گی۔
وفد ثقیف:
غزوہ طائف کی تفصیلات کے ضمن میں بیان کیا جا چکا ہے کہ عُروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس وقت جاکر ملے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوئہ طائف سے مدینہ واپس جا رہے تھے، اور اسلام قبول کر لیا، پھر اپنی قوم (ثقیف) میں لوٹ کر گئے اور انہیں اسلام کی دعوت دی، لیکن سب نے مل کر اُن کو قتل کر دیا، اور اُن کی خواہش کے مطابق اُن شہیدوں کے ساتھ دفن کر دیے گئے جو محاصرہ طائف کے وقت مارے گئے تھے۔
عُروہ رضی اللہ عنہ کے قتل کیے جانے کے بعد ثقیف نے چند ماہ انتظار کیا، پھر آپس میں مشورہ کیا اور سوچا کہ وہ تمام عربوں کی مخالفت کی قدرت نہیں رکھتے ہیں، اِس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے کچھ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجیں۔ انہوں نے عبدیالیل بن عمرو بن عُمیر سے بات کی تو اس نے کہا کہ کہیں وہ لوگ اس کے ساتھ بھی عُروہ جیسا معاملہ نہ کریں، اس لیے وہ اسی صورت میں جائے گا کہ اس کے ساتھ چند دیگر اشخاص کو بھی بھیجا جائے۔ چنانچہ انہوں نے اس کے ساتھ اپنے حلیفوں میں سے دو اور بنی مالک میں سے تین افراد کو بھیجا۔ انہی میں عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ یہ لوگ مدینہ کے لیے نکلے اور اُس کے قریب ایک نہر کے پاس رُکے، وہاں اُن کی ملاقات مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے ہوگئی جو انہیں دیکھ کر
|