Maktaba Wahhabi

637 - 704
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی آمد کی خوشخبری سنانے کے لیے دوڑنے لگے، راہ میں اُن کی ملاقات ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ہوگئی، انہوں نے اُن سے قسم کھا کر کہا کہ وہ اُن کو ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچانے دیں، مغیرہ رضی اللہ عنہ راضی ہوگئے تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن ثقفیوں کی آمد کی اطلاع دی، اور مغیرہ اُن کے پاس لوٹ آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد کے اَرکان کو مسجدِ نبوی میں موجود ایک چھوٹے خیمہ میں جگہ دی تاکہ اُن کے دل پر اس کا اچھا اثر پڑے۔ خالد بن سعید بن عاص رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے درمیان ثالثی کا کام کرتے رہے یہاں تک کہ اُن کے ساتھ عہد نامہ لکھ دیا گیا، اُن کے کاتب خالد رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ ثقیف والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہمیں نماز پڑھنے سے مستثنیٰ رکھا جائے، اور ان کا ’’لات‘‘ نامی بُت تین سال تک منہدم نہ کیا جائے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بات نہیں مانی اور فرمایا: جس دین میں نماز نہیں اس میں کوئی بھلائی نہیں۔ پھر انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ وہ اپنے بُتوں کو اپنے ہاتھوں سے نہیں توڑیں گے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ بات مان لی۔ اس کے بعد وہ سب مسلمان ہوگئے۔ موسیٰ بن عقبہ رحمہ اللہ نے روایت کی ہے کہ وفد کے اَرکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ اسلام لے آئے۔ انہی دنوں کنانہ بن عبدیالیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: کیا آپ ہمارے بارے میں کوئی فیصلہ کر دیں گے تاکہ ہم لوگ اپنی قوم کے پاس لوٹ جائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، اگر تم لوگ اسلام کا اقرار کر لوگے تو تمہارے بارے میں فیصلہ کر دوں گا، ورنہ کوئی فیصلہ اور ہمارے اور تمہارے درمیان صلح کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ کنانہ نے کہا: زنا کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، اس لیے کہ ہم لوگ باہر جایا کرتے ہیں، اور ہمیں اس کی ضرورت پڑتی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو تم پر حرام ہے۔ اُس نے پوچھا: سود کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تمہارا رأس المال مل جائے گا۔ اُن لوگوں نے پوچھا: شراب کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے اُسے حرام کر دیا ہے۔ انہوں نے پھر پوچھا: ہم اپنی معبودنی کا کیا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے توڑ ڈالو۔ یہ تمام باتیں سن کر وہ لوگ باہر نکل گئے اور آپس میں مشورہ کرنے کے بعد واپس آئے اور اپنی اطاعت کا اعلان کر دیا، اور یہ شرط لگائی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’لات‘‘ نامی بُت کو خود ہی توڑیں۔ [1] نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا امیر عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو جو اُن میں سب سے کم عمر تھے، مقرر کیا، اس لیے کہ وہ قرآنِ کریم اور شرائعِ اسلام کا علم حاصل کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے تھے۔ آپؐ نے اُن سے کہا: ہلکی نماز پڑھایا کرو اس لیے کہ لوگوں میں بوڑھے اور حاجت مند لوگ ہوتے ہیں۔ ایک روایت میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور مؤذن ایسے آدمی کو
Flag Counter